اسلام آباد ( وقائع نگار خصوصی) ٹیلی نار کی طرف سے انٹرنیشنل کلیئرنگ ہاؤس سے الگ ہونے کی دھمکی کے بعد حکومت اور ٹیلی کام اداروں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں جس میں حکومت کی طرف سے مسلسل یہ کوشش ہورہی ہے کہ انٹرنیشنل کلیئرنگ ہاؤس کے نظام کو بچالیا جائے اور موبائل فون کمپنیوں کو جوشکایات درپیش ہیں ان کا ازالہ کردیا جائے۔ اس سلسلے میں ٹیلی کام اتھارٹی ٗ موبائل فون کمپنیوں اور ایل ڈی آئی اداروں کے درمیان قابل عمل فارمولہ تیار کیا جارہا ہے، انٹرنیشنل کلیئرنگ ہاؤس پیپلزپارٹی کے دوران میں قائم کیا گیا تھا جس میں چودہ ایل ڈی آئی اور ایک موبائل فون کمپنیوں کو شامل کیا گیا تھا ، اس کا مقصد انٹرنیشنل غیر قانونی ٹیلی فون کالز کو کو روکنا اور زرمبادلہ کی چوری کی روک تھام تھا۔ اس نظام کی تشکیل کے بعد حکومتی خزانے کو پندرہ ماہ کے دوران 32 ارب روپے وصول ہوچکے ہیں جبکہ اس سے کہیں زیادہ ایل ڈی آئی اداروں کو رقوم منتقل ہوئی ہیں،لیکن موبائل فون کمپنیاں محروم ہیں ٗ جبکہ انٹرنیشنل کال کی منتقلی کا اسی فیصد کام موبائل فون نیٹ ورک کے ذریعے ہورہا ہے۔ پندرہ ماہ قبل جب اس نظام کے معاہدے پرد ستخط ہوئے تھے تو موبائل کمپنیوں کے حوالے سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں بھی اس نظام میں موثر حصہ دیا جائیگا اور اس مقصد کیلئے موبائل ٹرمینیشن ریٹ کا تعین کیا جائے گا، لیکن پندرہ ماہ گزر گئے اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ گزشتہ ہفتہ ٹیلی نار کی طرف سے ٹیلی کام اتھارٹی کو ایک خط لکھا گیا ہے کہ ٹرمینیشن ریٹ کا مطالبہ 31 دسمبر تک تسلیم کرلیا جائے ورنہ ٹیلی نار اس نظام سے الگ ہوجائے گی ۔ جس کے بعد ٹیلی کام اتھارٹی ٗ موبائل فون کمپنیوں اور ایل ڈی آئی اداروں کے درمیان مذاکرات کے متعدد دور ہوچکے ہیں ٗ ٹیلی کمپنیاں اس حوالے سے غیر رسمی مشاورت بھی کررہی ہیں۔ یاد رہے انٹرنیشنل کلیئرنگ ہاؤس کی آمدنی میں ناصر ف وفاقی حکومت کا حصہ مل رہا ہے بلکہ چاروں صوبوں کو بھی ٹیکس کی مد میں بھاری رقوم مل رہی ہیں، وزارت خزانہ اور وزارت ٹیلی کام کے مفادات بھی ہیں لہٰذا انٹرنیشنل کلیئرنگ ہاؤس کا نظام ختم ہونے سے حکومتی خزانے کے ساتھ ساتھ نجی ٹیلی کام کمپنیوں کے مفادات کو بھی نقصان پہنچے گا۔ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ ایسا فارمولہ طے کرلیا جائے جس سے موبائل فون کمپنیوں کے مطالبات پورے ہوجائیں اور غیر قانونی انٹرنیشنل کال کی روک تھام بھی ہوسکے۔