اسلام آباد (صباح نیوز)

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما سردار جہانگیر خان ترین نے کہا ہے کہ ایف آئی اے رپورٹ میں شوگر ملزایسوسی ایشن کا مؤقف نہیں لیا گیا، میں نے چیئرمین صاحب سے پوچھا ہے انہوں نے کہا کہ ہمارا مؤقف نہیں لیا گیا جو لینا چاہیے تھا، وہ چاہتے ہیں کہ ڈی جی ایف آئی ا ے واجد ضیاء انہیں وقت دیں اور انہوں نے خط بھی لکھا ہے کہ آپ ہمیں وقت دیں ہم آکر آپ کو سمجھا دیں گے کہ حقائق کیا ہیں تاکہ آپ لوگ یہ غلط بیانی نہ کریں اورعوام کو غلط راستے پر نہ لگائیں، سبسڈی دی گئی اس کی کوئی وجہ ہوتی ہے یہ کسی کو نوازا نہیں گیا۔میں وزیر اعظم عمران خان سے اس معاملہ پر نہیں ملوں گا کہ شوگر ملوں کی صفائی دوں یہ کا م شوگر ملز ایسوسی ایشن کا ہے اور میں ان سے کہوں گا کہ وہ کوشش کریں اور وزیر اعظم سے وقت لیں اور ان کے سامنے اپنا باقاعدہ مؤقف بیان کریں اور میری اطلاع ہے کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد درخواست کی ہے کہ آپ ہمیں وزیر اعظم سے وقت لے کر دیں تاکہ ہم جا کر بتائیں کہ اصل میں کہانی کیا ہے۔ تما م باتیں جو کی جارہی ہیں یہ غلط ہیں، ایسی ایسی باتیں نکالی جارہی ہیں جو حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔ان خیالات کا اظہار جہانگیر ترین نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے تین ارب روپے کی سبسڈی لی ہے تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس میں اڑھائی ارب روپے اس زمانے کے ہیں جب (ن)لیگ کی حکومت تھی اُس کا تو کوئی مجھے ذمہ دا رنہیں ٹھہرا سکتا کہ میں نے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا میں تو ان کا دشمن نمبر ایک تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سبسڈی دی گئی اس کی کوئی وجہ ہوتی ہے یہ کسی کو نوازا نہیں گیا۔ اس لئے سبسڈی دی گئی کہ ملک میں بہت زیادہ چینی بن گئی اور وہ چینی ملکی کھپت سے 30لاکھ ٹن زیادہ تھی، اس کو ایکسپورٹ کرنا ہی کرنا تھا اور دنیا میں چینی کی قیمتیں بہت گری ہوئی تھیں اور یہاں سے ایکسپورٹ کرنے کے لئے سبسڈی کے بغیر ایکسپورٹ نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح گندم کے اوپر بھی گزشتہ تین چار سال میں بہت بڑی ، بڑی سبسڈی دی گئی اور (ن)لیگ کی حکومت نے 150ڈالر فی ٹن گندم پر سبسڈی دی، کیونکہ یہاں پر بہت زیادہ گندم پیدا ہو گئی تھی اور باہر ایکسپورٹ نہیں ہو سکتی تھی اور یہاں گل سڑ رہی تھی۔ جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ کسی نے بھی اس کمیشن انکوائری رپورٹ میں سے ہم سے بات نہیں کی، کسی نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کا مؤقف نہیں لیا کہ یہ کیوں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018میں جب ہم حکومت میں آئے تو اس سے پہلے دو سال زیادہ گنا تھا اور میرے اور دو تین اور مل والوں کے علاوہ دیگر لوگوں نے 120،130اور140روپے من میں سستا گنا خریدااور اس وجہ سے سستی چینی بنی اور جب ہم 2018میں آئے تو ہم نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ ہم نے زمیندار کو پورے 180روپے فی من دلوانے ہیں اور ہم نے یہ دلوائے، اس کے لئے ضروری تھا کہ پہلے سرپلس اسٹاک ایکسپورٹ ہو جاتا اور وہ سرپلس اسٹاک ایک سبسڈی کے حساب سے ایکسپورٹ ہوا، جو (ن)لیگ کے دور کے حساب سے آدھی سبسڈی تھی اور یہ بھی پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر تھی اور یہ حکومت کا فیصلہ تھا اور یہ کوئی جہانگیر ترین کا فیصلہ نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی ہمیں بلائے گا تو شوگر ملز ایسوسی ایشن والے جائیں گے اور یہ جہانگیر ترین کی شوگر ملز ایسوسی ایشن نہیں ہے، میرے پاس چھ ملیں ہیں اور پاکستان میں 80ملیں ہیں، یہ شوگر ایسوسی ایشن سے بات کریں اور ان سے مؤقف لیں۔ ٹھنڈے دل سے اس ساری چیز کو دیکھنا ہے اور اس پر الزام تراشی نہیں کرنی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی مقرر کردہ 180روپے من کے حساب سے چینی کی قیمت متعین کریں یہ تو انکوائری رپورٹ نے لکھا ہی نہیں ہے۔ شوگر ایسوسی ایشن اس معاملہ پر بیٹھے گی اور اپنا مؤقف دے گی۔ ZS
#/S