اسلام آباد (صباح نیوز)

مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کاروباری شخصیات میں ٹیکس رن فنڈ کے چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ منفی اقتصادی اثرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس میں خصوصی طور پر ایک ہزار 200 ارب روپے کا پیکج دیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے متاثرہ افراد کی حفاظت اور انہیں کھانے کی اشیا اور نقد رقم پہنچانا ہے۔ جمعہ کو وزیر اعظم 150ارب روپے کے پروگرام کا آغاز کریں گے جس میں ایک کروڑ 20لاکھ خاندانوں کو فی گھرانہ 12ہزار روپے دیے جائیں گے سے سے پاکستان کی ایک تہائی آبادی استفادہ کر سکے گی۔ دوسرا متاثر شدہ طبقہ پاکستان کی کاروباری برادری ہے جس کے لیے ہم نے پانچ بڑے فیصلے کیے ہیں جس میں 200ارب روپے ان ملازموں کے لیے ہیں جو موجودہ حالات سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

مشیر خزانہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ چھوٹے کارخانوں کے ملازمین اور مالکان کے لیے 100ارب روپے رکھے گئے ہیں اور اس میں خصوصا سود یا بنیادی رقم کی ادائیگی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں تو ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں رعایت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ 100ارب کاروباری برادری خصوصا ایکسپورٹرز کو ری فنڈ کیے جا رہے ہیں جبکہ بجلی اور گیس کے واجب الادا بل فوری ادا کرنے کی ضرورت نہیں اور وہ تین مہینے بعد ادا کیے جا سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بھی جو اثرات مرتب ہوں گے وہ حکومت اپنی جیب سے برداشت ادا کرے گی جس کے لیے اضافی 100ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پیٹرول ڈیزل سمیت بیرون ملک سے لیے جانے والے تیل کی قیمتوں میں بھی کمی کی جائے گی اور حکومت نے اس کے لیے بھی 70ارب روپے رکھے ہیں جبکہ کھانے کی مصنوعات پر سے ہر طرح کی ڈیوٹیز کو ختم کردیا گیا ہے۔

عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ 200ارب کی گندم خریدی جا رہی ہے اور اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہمارے زراعت میں موجود کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کے پاس رقم آئے۔ان کا کہنا تھا کہ 100ارب روپے چار مختلف طریقوں سے ری فنڈ کیے جارہے ہیں جس میں سے ایک ڈی ایل ٹی ایل جس میں 30ارب دیے جا رہے ہیں جبکہ خصوصی طور پر ایکسپورٹرز کے لیے لیے مختص فاسٹر کے سیلز ٹیکس کے نظام میں 10ارب دیے جا رہے ہیں۔

مشیر خزانہ نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ غیربرآمد کنندگان کو سیلز ٹیکس ری فنڈ کی مد میں 52ارب دیے جارہے ہیں تو یہ سب ملا کر ہم اپنی کاورباری برادری کو 107ارب دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم صوبائی حکومتوں اور کاروباری برادری سے مسلسل رابطے میں ہیں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ حکومت کا پیسہ ہے دراصل پاکستان کے عوام کا پیسہ ہے اور ان کو صحیح انداز میں خرچ ہونا چاہیے اور اس کڑے وقت میں مشکلات کا شکار افراد تک پہنچے۔