تیل بحران پر پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر

25آئل کمپنیوں کے پاس آئل ذخیرہ ہی نہیں تھا

تیل کی قیمتیں اوپر جانے  پر دیگر کمپنیوں نے ذخیرہ اندوزی شروع کردی تھی

اسلام آباد (ویب ڈیسک ) تیل بحران پر پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ پبلک ہو گئی۔  جون 2020میں ملک میں پٹرول بحران کا چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے ازخود نوٹس لیا تھا،عدالتی حکم پر ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے ابو بکر خدا بخش، ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب گوہر نفیس سمیت 5رکنی پٹرولیم کمیشن بنا، پٹرولیم کمیشن نے 168صفحاتی رپورٹ چیف جسٹس کو پیش کی اورعدالتی حکم پر یہ رپورٹ پبلک کر دی گئی۔کمیشن رپورٹ کے مطابق اوگرا قوانین کے تحت کوئی بھی آئل کمپنی آئل ذخیرہ بنائے بغیر کام نہیں کر سکتی ۔ 25آئل کمپنیوں کے پاس آئل ذخیرہ ہی نہیں تھا۔تیل بحران کی وجہ یہ تھی کہ آئل کمپنیوں نے ہنگامی صورتحال کیلئے 20دن کا تیل کا ذخیرہ رکھنا تھا جو نہیں رکھا گیا۔ جب تیل کی قیمتیں  مزیدنیچے آنے کا انتظار کیا گیا تاہم  ایسا نہ ہو سکا۔رپورٹ کے مطابق  تیل کی قیمتیں اوپر جانے لگیں تو پی ایس او کے علاوہ تمام کمپنیوں نے ذخیرہ اندوزی کرکے تیل بحران پیدا کر دیا۔ اوگرا نے روکنا تھا مگر وہ سب کچھ وزارتِ پٹرولیم پر ڈالتی رہی اور وزاتِ پٹرولیم سب کچھ اوگرا پر ڈالتی رہی، جب کہ آئل کمپنیاں دھڑا دھڑ مال بناتی رہیں۔پٹرولیم کمیشن رپورٹ کے مطابق 2002میں یہاں 4آئل کمپنیاں تھیں، آج 66ہیں اور دلچسپ امر ہے کہ کاغذوں میں سب آئل کمپنیاں خسارے میں ہیں۔  ہم سے دس گنا بڑے بھارت میں صرف 7آئل کمپنیاں، سری لنکا میں 3، بنگلہ دیش میں 6۔ پٹرولیم کمیشن رپورٹ کے مطابق  یہ آئل کمپنیاں ملک و قوم کو سالانہ ڈھائی سوا ارب کا ٹیکہ لگاتی ہیں۔ ڈی جی آئل کو انجینئر یا تیل ایکسپرٹ ہونا چاہئے لیکن یہاں جانوروں کا ڈاکٹرتعینات ہے۔ رپورٹ میں رشوت خور سیکشن افسر کی نشاندہی بھی کی گئی ہے ۔ بائکو آئل کمپنی کی 23ارب کی ہیرا پھیری پکڑی گئی، کیس نیب کے پاس آیا۔؟ سوا ارب دے کر، 23ارب کا کیس، پلی بارگین ہو گئی۔ 15جون کو جہاز 60 ہزار میٹرک ٹن تیل لے کر پورٹ قاسم بندرگاہ کراچی پر آیا، اِسی دوران پتا چلا کہ تیل کی قیمتیں بڑھنے والی ہیں، جہاز کوا یک سائیڈ پر کھڑا کر دیا گیا، 27جون کو جب تیل فی لیٹر 20روپے بڑھا تو اگلے دن 15دن سے سائیڈ پر کھڑا جہاز کاغذوں میں آف لوڈ ہوا اور پرانی قیمتوں پر آئے جہاز کا تیل جب نئی قیمتوں پر فروخت ہوا تو اس ایک جہاز سے منافع کمانے والوں نے 2ارب روپے کا اضافی منافع کمایا۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک طرف عوام تک تیل کی سپلائی 44فیصد تک کم ہو گئی تھی مگر تیل کمپنیوں نے کاغذوں میں اپنی تیل کی سیل کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کیا۔لاک ڈاون کے سبب جب خیبر پختونخوا کے ضلع دیر میں سیاحت سمیت سب کام ٹھپ پڑے ہوئے تھے۔ تب کاغذوں میں وہاں پٹرولیم کھپت ریکارڈ دکھائی گئی۔گجرات میں ایک پٹرول پمپ پر 3ملین کی ڈلیوری دکھائی گئی جبکہ وہاں پٹرولیم ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف 31ہزار لیٹر ہے۔ پٹرولیم کمیشن رپورٹ کے مطابق تمام بڑی آئل کمپنیاں اوگرا قوانین کے برعکس مسلسل ذخیرہ اندوزی کر رہی ہیں، اوگرا نے انہیں ذخیرہ کرنے کے جتنے آوٹ لٹس کی اجازت دی ہوئی، کئی کے آوٹ لٹس اِس سے کہیں زیادہ ہیں، جیسے ایک بڑی آئل کمپنی کوتیل ذخیرہ کرنے کیلئے 70آوٹ لٹس کی اجازت دی گئی لیکن اِس کے پاس 6سو آوٹ لٹس ہیں، رپورٹ کے مطابق تیل کی ترسیل کیلئے استعمال ہونے والے آئل ٹینکروں کے پاس کیوکیٹگری کا لائسنس ہونا چاہئے مگر ایک بھی آئل ٹینکر کے پاس یہ لائسنس نہیں۔168صفحاتی رپورٹ  ہے۔خیال رہے کہ کسی معاملے میں موجودہ دورحکومت میں گھپلہ بازوں کو سزائیں نہیں مل پائیں،  چینی آٹا، گندم والوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکا۔عوامی حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس رپورٹ کو بھی پس پشت ڈالا جاسکتا ہے اور اسی طرح ملک میں سیکنڈل  کا سلسلہ جاری رہے گا۔