اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی میں پاکستانی دریاؤں پر بھارتی ڈیموں کی تعمیر کے خلاف قرر داد پر بحث کے دوران حکومتی و اپوزیشن اراکین کالا باغ ڈیم سمیت پانی کی صوبوں کے درمیان تقسیم پر آپس میں الجھ پڑے، حکومتی اراکین کی جانب سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے مطالبے پر سندھ سے تعلق رکھنے والے پی پی اراکین نے شدید احتجاج کیا، نو نو اور شیم شیم کے نعرے لگائے اور کہا کہ کالا باغ ڈیم تین صوبے مسترد کر چکے ، کالا باغ ڈیم سندھ کی لاشوں پر بنے گا، یہ جمہوریت ، آئین اور وفاق کے خلاف سازش ہے۔ اس موقع پر اپوزیشن کے متعدد اراکین نے ایک ساتھ بولنا شروع کر دیا جس سے ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے گا۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے اپوزیشن و حکومتی اراکین سے کہا کہ ایوان کا تقدس پامال نہ کریں۔ اپنی بات باری آنے پر کریں اور تحمل سے ایک دوسرے کا نقطہ نظر سنیں۔ منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پی پی پی کی بیلم حسنین کی جانب سے پاکستانی دریاؤں پر بھارت کی جانب سے ڈیموں کی تعمیر کی مخالفت میں پیش کی جانے والی قرار داد پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے تحریک انصاف کے رکن اسمبلی شفقت محمود نے کہا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کا فائدہ اٹھا کر بڑی تعداد میں پاکستانی دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے جبکہ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کہیں سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حق میں ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ دو طرفہ تنازعات کے حل کے بغیر بھارت سے دوستانہ تعلقات ممکن نہیں۔ پی پی کی ایم این اے شازیہ مری نے کہا کہ پانی ایک اہم ضرورت ہے ہمیں ایک ہی ڈیم پر ضد کرنے کی بجائے نئے ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دینی چاہیے۔ مگر اہم بات یہ بھی ہے کہ ایک جانب تو ہم پانی روکنے پر بھارتی حکومت پر تنقید کرتے ہیں کہ بھارت ہمارے ساتھ زیادتی کر رہا ہے کیونکہ ہم نیچے والے ہیں مگر پاکستان کے اندر ہم دریائی پانی پر نیچے والوں کا حق نہیں مانتے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔مسلم لیگ(ن) کے قیصر احمد شیخ نے کہا کہ بھارتی پنجاب میں حکومت کی جانب سے ٹیوب ویل کے لئے بجلی پر بھاری سبسڈی کی وجہ سے پاکستان(پنجاب) میں زیر زمینیں پانی کے ذخائر متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے دریاؤں پر انڈیا کے ڈیموں پر بات ضرور کرنا چاہیے مگر خود بھی اپنے دریاؤں پر ڈیم بنانے کا سوچنا چاہیے۔ تحریک انصاف کی رکن اسمبلی عائشہ گلالئی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ ہم ایک جانب پاکستانی دریاؤں پر بھارتی ڈیموں کی تعمیر پر تنقید کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب بھارت سے بجلی در آمد کرنے کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے محمود بشیر ورک کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہمارے دریاؤں کا 20سے30ملین ایکڑ فٹ پانی ہر سال سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر یہ پانی کالا باغ ڈیم بنا کر ذخیرہ کیا جائے تو نہ صرف اضافی بجلی پیدا کر سکتے ہیں بلکہ اپنی بنجر زمینیں بھی آباد کر سکتے ہیں۔ مگر ہمارے کچھ دوسوتں نے طے کر لیا ہے کہ اس کو بننے ہی نہیں دینا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نواز قوتیں کالا باغ ڈیم کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہیں۔ آپ کالا باغ ڈیم بنائیں بے شک پنجاب کو اس میں سے ایک قطرہ پانی نہ دیں۔ اس پر پیپلز پارٹی کے ایم این اے نواب یوسف تالپور نے کہا کہ یہ افسوسناک بات ہے کہ معزز رکن اسمبلی کی قرار داد کا موضوع کوئی اور تھا جبکہ حکومتی بنچوں پر موجود دوست اس کو سمندر میں پانی کے ضیاع اور کالا باغ ڈیم سے جوڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح پاکستان بھارت پر تنقید کرتے ہوئے نیچے والوں کے حق کی بات کرتا ہے اسی طرح سندھ بھی ٹیل ہے، ہم نے جہلم لنک کینال کی مخالفت کی مگر آپ نے گریٹر تھل کینال بنالی۔ سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ زرعی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف کے شہریار آفریدی نے کہا کہ آج ہم اپنی کوتاہیوں کا الزام بھارت کے سرتھوپ رہے ہیں۔ ہمیں بڑے ڈیموں کی بجائے چھوٹے ڈیموں کو ترجیح دینی چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کی طاہرہ اورنگزیب نے کہا کہ پاکستانی دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر درحقیقت بھارت کی پاکستان کو بنجر کرنے کی سازش ہے۔ شمس الملک ارپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالاباغ ڈیم سے نوشہرہ کے ڈوبنے کا کوئی خطرہ نہیں، اگر اس کے نام پر اختلاف ہے تو اپنی پسند کا کوئی نام رکھ لیں مگر کالا باغ ڈیم ضرور بنائیں۔ رکن قومی اسمبلی انجینئر عثمان خان ترکئی نے کہا کہ حکومت کو نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنا چاہیے جبکہ کالا باغ ڈیم کا مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل میں افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہیے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی ایاز سومرو نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے وہئے کہا کہ پارلیمنٹ میں گزشتہ کئی روز سے متنازعہ ڈیم کے حق میں آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں ۔بلکہ مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن پارلیمنٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جن صوبائی اسمبلیوں نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں قرار دادیں منظور کی ہیں انہیں توڑدینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وفاق پاکستان کے خلاف ایسی باتیں نہیں ہونی چاہیئیں جبکہ ہم بتا دیں کہ کالا باغ ڈیم سندھ کی لاشوں پر بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کے حق میں آواز اٹھا کر جمہوریت، آئین اور وفاق کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ سندھ میں تو ہمارے پاس لاش کو غسل دینے کے لئے پانی نہیں ہوتا۔ سمندر میں اتنا پانی کہاں کوئی ضائع ہونے دے گا۔ ایاز سومرو نے کہا کہ ایسی باتیں نہ کی جائیں کہ کل صوبوں کے درمیان پانی پر جنگ شروع ہو جائے۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کے رکن اسمبلی مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ ڈکٹیٹر ایوب خان نے ہمارے ساتھ ظلم کیا کہ سندھ طاس معاہدے کے ذریعے تین دریا(ستلج، راوی، بیاس) کا پانی بھارت کو دے دیا جبکہ سرائیکی علاقے (جنوبی پنجاب) کی کمزور آواز کو دبا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تربیلہ اور منگلہ ڈیموں کی وجہ سے اپر پنجاب کو تو پانی مل گیا لیکن جنوبی پنجاب سوکھ گیا۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھارت مزید ڈیم بنانے کے مواقع دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت آئے گا جب سندھ کا بچہ بچہ کالا باغ ڈیم کی بات کرے گا۔