خفیہ بیلٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہوتا ہے، ہم پارلیمنٹ ہیں نہ ہی اس کے دائرہ اختیار کو محدود کر سکتے ہیں،سپریم کورٹ
جمہوریت میں فیصلے پارٹی کرتی ہے قیادت نہیں، ۔ پارٹیوں کے فیصلے بھی  جمہور ی انداز میں ہونے چاہئیں،چیف جسٹس
سماعت آج دوبارہ ہوگی

اسلام آباد(ویب  نیوز) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹ کے معاملے میں ریمارکس دیے ہیں کہ کہ خفیہ بیلٹ سے متعلق معاملات پارلیمنٹ پر چھوڑے گئے ہیں اور اس کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہوتا ہے جبکہ ہم پارلیمنٹ نہیں اور نہ ہی اس کے دائرہ اختیار کو محدود کر سکتے ہیں۔ایوان بالا میں اوپن بیلٹ سے متعلق معاملے کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آئین میں پارٹیوں کا ذکر ہے شخصیات کا نہیں، ہمارے سامنے 3 صورتحال ہیں، کیا آرٹیکل 226 کا سینیٹ انتخابات پر اطلاق ہوتا یا نہیں؟کیا متناسب نمائندگی سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کے ذریعے ہو سکتی ہے؟ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرڈیننس کا سوال عدالت کے سامنے نہیں، آرڈیننس جاری ہونے پر کوئی رائے نہیں دیں گے۔ جمہوریت میں فیصلے پارٹی کرتی ہے قیادت نہیں، آئین میں پارٹیوں کا ذکر ہے شخصیات کا نہیں، کوئی اوپر سے اپنے فیصلے لاکر نافذ نہیں کر سکتا۔ پارٹیوں کے فیصلے بھی  جمہور ی انداز میں ہونے چاہئیں۔ کس کو ووٹ دینا ہے یہ فیصلہ پارٹیاں کیسے کرتی ہیں۔دوران سماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل میاں رضا ربانی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ یہاں ایوان زیریں میں ووٹنگ کی مثالیں دی گئیں، عدالت کے سامنے معاملہ ایوان زیریں کا نہیں بلکہ ایوان بالا کا ہے، خفیہ ووٹ ووٹر کا اپنا راز ہے اور ووٹر اپنا راز کسی اور ووٹر سے تو شیئر کر سکتا ہے ریاست سے نہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر ووٹ قابلِ شناخت بنا دیا جائے تو یہ راز صرف ووٹر کا راز نہیں رہے گا، اگر عدالت اوپن بیلٹ کے نتیجے پر پہنچتی ہے تو موجودہ الیکشن ایک عارضی قانون کے تحت ہوگا۔رضا ربانی نے کہا کہ یہ عارضی قانون ایک آرڈیننس کی صورت میں پہلے سے موجود ہے اور آرڈیننس کی مدت 120 دن ہوتی ہے جبکہ میں یہاں آرڈیننس کی نہیں بلکہ آئینی شق کی بات کر رہا ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی میں متناسب نمائندگی سیاسی پارٹیوں کی ہوتی ہے اور سینٹ میں متناسب نمائندگی صوبوں کی ہوتی ہے۔اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کی دلیل صرف قومی اسمبلی کے چناو کے لیے کارگر ہے، قومی اسمبلی کا ووٹ فری ہوتا ہے،فری ووٹ کا مطلب ووٹر کی آزادی ہے جبکہ سینٹ کے ووٹ کے لیے فری نہیں کہا گیا، اس لیے اس کا خفیہ ہونا ضروری نہیں ہے۔انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ متناسب نمائندگی کے تصور کو رکھیں تو پھر ووٹ کو خفیہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں، اگر پارلیمنٹ قانون سازی کر دے کہ الیکشن اوپن بیلٹ سے ہوگا تو کیا آپ اسے درست سمجھیں گے؟ آئین میں استعمال شدہ لفظ الیکشن کو غلط نہ کہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ نے جسٹس یحیی آفریدی کے سوال جواب نہیں د یا، کیا ہر ایم پی اے ووٹ دینے کے کیے آزاد ہوتا ہے؟ کیا بین الاقوامی معاہدے سینٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ کے زریعے کروانے کا کہتے ہیں؟سپریم کورٹ کسی بین الاقوامی معاہدے کی حامی نہیں،پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے کہ اگر پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون بنائے جو آئین سے متصادم ہو تو یہ عدالت اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے، یہ عدالت ماضی میں ایسے قوانین کالعدم کر چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 226 کی ذیلی شق کے تحت کسی ووٹر کو کسی بھی صورت میں بیلٹ اوپن کرنے ہر مجبور نہیں کیا جا سکتا، یہ عدالت مشاورتی اختیار کے تحت ریفرنس سن رہی ہے اور عدالت نے اس کا جواب سیاسی طور پر نہیں قانون کے مطابق دینا ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ حکومت نے یہ ریفرنس قانون کی تشریح کے لیے نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کے لیے دائر کیا ہے۔وکیل ن لیگ بیرسٹر ظفر اللہ نے دلائل دیے کہ پاکستان کئی بین الاقوامی معاہدوں کا حصہ ہے اور الیکشن ایکٹ کی تیاری کے دوران خفیہ ووٹنگ پر بحث ہوئی تھی۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت نے اس وقت خفیہ ووٹنگ کی حمایت کی تھی اور سینیٹ الیکشن کے بعد صوبائی اسمبلیاں تحلیل بھی ہو سکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات سے متعلق صدر کا ریفرنس غیرقانونی ہے کیونکہ حکومت عدلیہ سے کھلواڑ کر رہی ہے۔ بیرسٹر ظفر اللہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کے نمائندگی خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہی ممکن ہے، تاریخ کے تناظر میں آئین کے آرٹیکل 226 کی تشریح ممکن ہے ، صوبائی اسمبلیوں کے دوبارہ انتخابات میں کوئی اور جماعت بھی حکومت میں آسکتی ہے، اگر متناسب نمائندگی پارٹیوں کی ہے تو نئی اسمبلیوں میں کی سینیٹ میں کیا پوزیشن ہوگی۔ خفیہ ووٹنگ ختم ہوئی تو جمہوریت کے لئے دھچکا ہوگا۔بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ ‘اٹارنی جنرل نے یہ نہیں بتایا کہ قانون کیا ہے بلکہ یہ کہتے رہے کہ قانون کیا ہونا چاہیے’۔سندھ ہائی کورٹ بار کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ آج تک دائر ہونے والے تمام ریفرنسز آئینی بحران پر تھے، موجودہ حالات میں کوئی آئینی بحران نہیں ہے، ماضی میں حکومت نے اپنی سیاسی ذمہ داری عدالت پر ڈالنے کی کوشش کی، ماضی میں عدالت نے قرار دیا کہ بنگلا دیش کو تسلیم کرنایا نہ کرنا پارلیمان کا اختیار ہے، ماضی میں بھارتی حکومت نے سپریم کورٹ سے بابری مسجد پر رائے مانگی تھی لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دینے سے انکار کیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل میں بتایا کہ قانون کیا ہونا چاہیے، اٹارنی جنرل نے یہ نہیں بتایا کہ قانون کیا کہتا ہے؟ انتحابی عمل سے کرپشن ختم کرنا پارلیمان کاکام ہے۔ سیکرٹ اور اوپن بیلٹ کے لیے عدالتی تشریح کی ضرورت ہی نہیں، کسی حد تک ووٹ کو اوپن کرنا بھی درست نہیں، ووٹرز کو ووٹ کی معلومات عام ہونے کا خوف ہی کافی ہے۔ اگر رکن اسمبلی کو اپنی رائے پر ووٹ دینے کا حق نہیں تو 800 اراکین پر مشتمل اسمبلیوں کی کیا ضرورت ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو سوال ریفرنس میں پوچھے گئے ہیں اس پر ہی جواب دیں گے، عدالت کو تعین کرنا ہے سینیٹ الیکشن پر ارٹیکل 226 لاگو ہوتا ہے یا نہیں، ریاست کے ہر ادارے کو اپنا کام حدود میں رہ کر کرنا ہے سپریم کورٹ پارلیمان کا متبادل نہیں، خفیہ ووٹنگ ہونی چاہیے یا نہیں فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ پارلیمان کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ اگر آئین کہتا ہے خفیہ ووٹنگ ہو گی تو بات ختم ہوجاتی ہے۔بعد ازاں سماعت آج جمعرات کے لیے ملتوی کر دی گئی
#/S