وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق کی زیر صدارت علماء و مشائح کا اجلاس

کسی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی بھی فرد کوکافر قراردے

اسلام کے نفاذ کے نام پر جبر کا استعمال، ریاست کیخلاف مسلح کارروائی،تشدد اور انتشار کی تمام صورتیں بغاوت سمجھی جائیں گی

مسلکی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے 20 نکاتی متفقہ ضابطہ اخلاق جاری

اسلام آباد(ویب ڈیسک )وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق کی زیر صدارت علمائے و مشا ئخ کا اجلاس ہوا ۔چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، پروفیسر ساجد میر، مولانا محمد حنیف جالندھری، ڈاکٹر راغب نعیمی، علامہ عارف واحدی، سید افتخار حسین نقوی، سید ضیا اللہ شاہ بخاری، مولانا عبدالمالک، پیر نقیب الرحمن، ڈاکٹر معصوم یسین زئی، راجہ ناصر عباس و دیگر علماء نے شرکت کی، تمام مسالک کے علما نے تاریخی دستاویز پیغامِ پاکستان کے تحت ملک میں مسلکی ہم آہنگی کے فروغ کیلئے 20 نکاتی متفقہ ضابطہ اخلاق پر دستخط کئے  ۔ متفقہ ضابطہ اخلاق کے نکات جاری کردیے گئے ہیںجن میں کہا گیا ہے کہ  تمام شہریوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو تسلیم کریں ، ریاست پاکستان کی عزت و تکریم کو یقینی بنائیں اورہر حال میں ریاست  کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف کو نبھائیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام شہری دستورپاکستان میںدرج تمام بنیادی  حقوق کے احترام کو یقینی بنائیں ان میں مساوات ، سماجی اورسیاسی حقوق، اظہار خیال ، عقیدہ ، عبادت اوراجتماع کی آزادی شامل ہیں۔ دستور پاکستان کی اسلامی ساخت اور قوانین پاکستان کا تحفظ کیا جائے گا۔ پاکستان کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ شریعت کے نفاذ کیلئے پرامن جدوجہدکریں۔ اسلام کے نفاذ کے نام پر جبر کا استعمال، ریاست کیخلاف مسلح کارروائی،تشدد اور انتشار کی تمام صورتیں بغاوت سمجھی جائیں گی اور یہ شریعت کی روح کیخلاف ہیں اور کسی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ حکومتی ، مسلح افواج اور دیگر سیکورٹی کے اداروں کے افراد سمیت کسی بھی فرد کوکافر قراردے۔ علماء ،مشائخ اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ افراد کوچاہیے کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں خاص طورپر قانون نافذکرنے  والے اداروںاور مسلح افواج کی بھرپورحمایت کریں  تاکہ معاشرے سے تشدد کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔ ہر فرد ریاست کے خلاف لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات  کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ ریاست ایسے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ کوئی شخص فرقہ وارانہ  نفرت ، مسلح فرقہ وارانہ تنازعہ اور جبراً اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ کرے کیونکہ یہ شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہے اور فساد فی الارض ہے۔کوئی نجی یا سرکاری یا مذہبی تعلیمی ادارہ عسکریت کی تبلیغ نہ کرے، تربیت نہ دے اور نفرت انگیزی ، انتہا پسندی اور تشدد کوفروغ نہ دے۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد اور اداروں کے خلاف قانون کے مطابق ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر سخت کارروائی کی جائے گی۔ انتہا پسندی ، فرقہ واریت اور تشدد کو فروغ دینے والوں، خواہ وہ کسی بھی تنظیم یا عقیدے سے ہوں کیخلاف سخت انتظامی اور تعزیری اقدامات کیے جائیں گے۔ اسلام کے تمام مکاتب فکر کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے اپنے مسالک اورعقائد کی تبلیغ  کریں، مگر کسی کو کسی شخص ، ادارے یا فرقے کے خلاف نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں یا بے بنیاد الزامات لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔کوئی شخص خاتم النبین حضرت محمد ۖ،جملہ انبیائے کرام ،اہل بیت اطہار،خلفاء راشدین اور صحابہ کرام  کی توہین نہیں کرے گا کوئی فرد یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا نہ ہی توہین رسالت کے کیسز کی تفتیش یا استغاثہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔کوئی شخص کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرے گا اور صرف مذہبی سکالر ہی شرعی اصولوں کی وضاحت مذہبی نظریے کی اساس پر کرے گا البتہ کسی کے بارے میں کفر کے مرتکب ہونے کا فیصلہ صادر  کرنا عدالت کا دائرہ اختیار ہے(مسلمان کی تعریف وہی معتبر  ہو گی جو دستور پاکستان میں ہے) کوئی شخص کسی قسم کی دہشت گردی کو فروغ نہیں دے گا دہشت گردوں کی ذہنی وجسمانی تربیت نہیں کرے گا ان کو بھرتی نہیں کرے گا اور کہیں بھی دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوگا۔ سرکاری،نجی اور مذہبی تعلیمی اداروں کے نصاب میں اختلاف رائے کے آداب کو شامل کیا جائے گا کیونکہ  فقہی اور نظریاتی اختلافات پر تحقیق کرنے کے لیے سب سے موزوں جگہ صرف تعلیمی ادارے ہوتے ہیں۔تمام مسلم شہری اور سرکاری حکام اپنے فرائض کی انجام دہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کی روشنی میں کریں گے۔بزرگ شہریوں،خواتین، بچوں ،خنثی اور دیگرتمام کم مستفیض افراد کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات ہر سطح پر دی جائیں گی۔پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب اور مذہبی رسومات کی ادائیگی اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق کریں۔ اسلام  خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خواتین سے ان کے ووٹ،تعلیم اور روزگار کا حق چھینے اور ان کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچائے ہر فرد غیرت کے نام پر قتل ،قرآن پاک سے شادی،ونی، کاروکاری اور وٹہ سٹہ سے باز رہے کیونکہ یہ اسلام کی روسے ممنوع ہیں۔کوئی شخص مساجد،منبر ومحراب،مجالس اور امام بارگاہوں میں نفرت انگیزی پر مبنی تقاریر نہیں کرے گا اور فرقہ وارانہ موضوعات کے حوالے سے اخبارات اور ٹی وی یا سوشل میڈیا پر متنازعہ گفتگو نہیں کرے گا۔آزادی اظہار اسلام اور ملکی قوانین کے ماتحت ہے اس لیے میڈیا پر ایسا کوئی پروگرام نہ چلایا جائے جو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا سبب بنے اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو مجروح کرے۔