سانحہ اے پی ایس سیکیورٹی کی ناکامی قرار، جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ پبلک کردی گئی

رپورٹ میں دھمکیوں کے بعد سکیورٹی گارڈز کی کم تعداد اور درست مقامات پر عدم تعیناتی کی نشاندہی کی گئی

  دھماکوں اور شدید فائرنگ میں سکیورٹی گارڈز جمود کا شکار تھے،دہشت گرد اسکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت داخل ہوئے

اگر سیکیورٹی گارڈز مزاحمت کرتے تو شاید جانی نقصان اتنا نہ ہوتا،غداری سے سیکیورٹی پر سمجھوتہ ہوا اور دہشتگردوں کا منصوبہ کامیاب ہوا

افغانستان سے دہشتگرد مہاجرین کے روپ میں داخل ہوئے،دہشتگردوں کو مقامی افراد کی طرف سے سہولت کاری ملی جو ناقابل معافی ہے

اپنا ہی خون غداری کر جائے تو نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں، کوئی ایجنسی ایسے حملوں کا تدارک نہیں کر سکتی بالخصوص جب دشمن اندر سے ہو

نیکٹا نے عسکری مراکز، حکام اور انکی فیملیز پر حملوں کا عمومی الرٹ جاری کیا جس کے بعد فوج نے دہشتگردوں کیخلاف کارروائیاں شروع کیں

سانحہ اے پی ایس نے فوج کی کامیابیوں کو پس پشت ڈالا، غفلت کا مظاہرہ کرنے والی یونٹ کے متعلقہ افسران و اہلکاروں کو سزائیں بھی دی گئیں

 اسلام آباد(ویب ڈیسک )سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر سانحہ اے پی ایس پر بننے والی جوڈیشل انکوائری کمیشن نے سانحے کی رپورٹ پبلک کردی ہے، جس میں سانحہ اے پی ایس کو سکیورٹی کی ناکامی قرار دے دیا گیا ہے، سانحہ اے پی ایس کی جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں دھمکیوں کے بعد سکیورٹی گارڈز کی کم تعداد اور درست مقامات پر عدم تعیناتی کی نشاندہی کی گئی ہے۔رپورٹ میں کمیشن نے اسکول کی سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ دھمکیوں کے باوجود سیکیورٹی گارڈز کی کم تعداد اور درست مقامات پر عدم تعیناتی بھی نقصان کا سبب بنی، غفلت کا مظاہرہ کرنے والی یونٹ کے متعلقہ افسران و اہلکاروں کو سزائیں بھی دی گئیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دھماکوں اور شدید فائرنگ میں سکیورٹی گارڈز جمود کا شکار تھے، دہشت گرد اسکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت داخل ہوئے، اگر سیکیورٹی گارڈز مزاحمت کرتے تو شاید جانی نقصان اتنا نہ ہوتا۔جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں مزید کہا گیاغداری سے سیکیورٹی پر سمجھوتہ ہوا اور دہشتگردوں کا منصوبہ کامیاب ہوا۔رپورٹ کے مطابق افغانستان سے دہشتگرد ممکنہ طور پر مہاجرین کے روپ میں داخل ہوئے  اور دہشتگردوں کو مقامی افراد کی طرف سے سہولت کاری ملی جو ناقابل معافی ہے، اپنا ہی خون غداری کر جائے تو نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں، کوئی ایجنسی ایسے حملوں کا تدارک نہیں کر سکتی بالخصوص جب دشمن اندر سے ہو۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گشت پر مامور سکیورٹی اہلکار دہشت گردوں کی جانب سے جلائی گئی گاڑی کی جانب چلے گئے، آگ سیکیورٹی اہلکاروں کو دھوکہ دینے کیلئے لگائی تھی  اور پھر گشت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں کی دوسری گاڑی نے پہنچ کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیکٹا نے عسکری مراکز، حکام اور انکی فیملیز پر حملوں کا عمومی الرٹ جاری کیا، نیکٹا الرٹ کے بعد فوج نے دہشتگردوں کیخلاف کارروائیاں شروع کیں، لیکن سانحہ اے پی ایس نے فوج کی کامیابیوں کو پس پشت ڈالا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کی جانب سے سانحہ آرمی پبلک سکول کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ عدالت نے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی بھی ہدایت کی۔آرمی پبلک سکول کے شہدا کے والدین عدالت میں پیش ہوئے اور کہا سپریم کورٹ اوپر والوں کو پکڑے، نیچے سب ٹھیک ہو جائے گا، ہم چاہتے ہیں کسی اور کے بچوں کیساتھ ایسا نہ ہو، منصوبہ بندی کیساتھ بچوں کو ایک ہی ہال میں جمع کیا گیا، یہ واقعہ دہشتگردی نہیں، بلکہ ٹارگٹ کلنگ تھا۔اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں انکوائری کمیشن رپورٹ پر جواب جمع کرایا اور کہا واقعہ میں ذمہ دار افراد کیخلاف ہر ممکن کارروائی کی جا رہی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب ! اوپر سے کارروائی کا آغاز کریں، ذمہ داران کیخلاف سخت کارروائی کریں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچ سکیں، انکوائری کمیشن رپورٹ، حکومتی جواب کی کاپی والدین کو فراہم کریں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا یہ پوری قوم کا دکھ ہے۔سپریم کورٹ نے امان اللہ کنرانی کو عدالتی معاون مقرر کر دیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ بڑے لوگوں کے خلاف کاروائی نہیں کی جاتی، ہمارے ملک کا المیہ رہا ہر بڑے سانحہ کا ذمہ دار چھوٹے عملے کو ٹھہرا کر فارغ کر دیا، بڑے لوگوں کیخلاف کارروائی نہیں کی جاتی، جب عوام محفوظ نہیں تو اتنا بڑا ملک اور نظام کیوں چلا رہے ہیں ؟ انکوائری کمیشن کی رپورٹ اور اس پر وفاق کا جواب پبلک کیا جائے، حکومت کمیشن رپورٹ پر لائحہ عمل بنائے۔چیف جسٹس نے 16دسمبر کو آرمی پبلک سکول کے شہدا کے والدین کی دعائیہ تقریب میں شرکت کی دعوت قبول کرلی۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کر دی۔