مظفر آباد(صباح نیوز)

آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے ججز کیس کافیصلہ سنا دیا ہے۔ آزاد کشمیرہائی کورٹ میں تعینات 5 ججزکی تقرری کالعدم قرار دے دی گئی۔ فارغ  ہونے والے ججوں میں رضا علی خان ایڈووکیٹ ، راجہ سجاد ایڈووکیٹ ، خالد یوسف ایڈووکیٹ ، سردار اعجاز خان ایڈووکیٹ اور چوہدری منیر شامل ہیں۔ ان ججز کی تعیناتی کو  ہائی کورٹ کے 4 وکلا   بیرسٹر عدنان نواز، ایڈووکیٹ شمشاد حسین خان، سردار جاوید شریف اور را جہ  عزت بیگ کی جانب آزاد کشمیر سپریم کورٹ میں چینج کیا گیا تھا۔ قائمقام چیف جسٹس   سپریم کورٹ راجہ سعید اکرم خان اور جسٹس غلام مصطفے مغل پر مشتمل بنچ  نے سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ جمعہ کوججز کیس کافیصلہ سنا دیا  گیا ۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں ججز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان ججز نے ہائی کورٹ میں تعیناتی کے دوران جو فیصلے کئے انہیں قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔ بطور جج جو مالی فوائد حاصل کئے انہیں بھی قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔ ماتحت عدلیہ سے جج جو پروموٹ ہو کر ہائی کورٹ میں آئے وہ واپس اپنی پوزیشن پر چلے جائیں گے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ ججز کی آسامیوں پر دوبارہ تقرریوں کے لئے قانونی طریقہ کار کے مطابق دوبارہ عمل شروع کیا جائے۔ ججز کی تقرری کے لئے عدالتی گائیڈ لائن محمد یونس طاہر قریشی کیس کے فیصلے میں موجود ہے۔ 137 صفحات پر مشتمل فیصلے  میںآزادکشمیر سپریم کورٹ نے لکھا کہ مذکورہ پانچ ججز کی تقرری کے سلسلے میں صدر آزادکشمیر نے اپنی سمری میں لکھا کہ ان ججز کی تقرری کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ہائیکورٹ کی  مشاورت شامل ہے۔ حالانکہ دونوں چیف جسٹسز نے ان ججزکے نام تجویز نہیں کیے تھے عدالت نے قراردیا ہے کہ یہ انتظامیہ کا اختیار نہیں ہے کہ اپنی خواہش کے مطابق ججز نامزد کرے۔ یاد رہے  23 مئی 2018 کو ہائی کورٹ کے  اس وقت   کے چیف جسٹس محمد تبسم آفتاب علوی نے  رضا علی خان ایڈووکیٹ ، راجہ سجاد ایڈووکیٹ ، خالد یوسف ایڈووکیٹ ، سردار اعجاز خان ایڈووکیٹ اور چوہدری منیر  سے ججز کے عہدے کا حلف لیا تھا۔  محکمہ قانون  نے ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا  تھا۔واضح رہے کہ آزاد کشمیر کے آئین کے تحت ہائی کورٹ کے جج کی تقرری سپریم اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد  آزاد کشمیر کے صدر کی جانب سے اے جے کے کونسل  کو دی گئی تجویز پر کی جاتی ہے۔عدالت میں بیرسٹر عدنان نواز، ایڈووکیٹ شمشاد حسین خان، سردار جاوید شریف اور راجہ  عزت بیگ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں آزاد کشمیر حکومت، اس کے محکمہ قانون، اے جے کے کونسل، اس کے چیئرمین(وزیر اعظم پاکستان)، سیکریٹری اور جوائنٹ سیکریٹری، صدر آزاد کشمیر اور 5 ججز کو فریق بنایا گیا تھا۔درخواست گزاروں کے وکیل بیرسٹر نواز کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان ججز کی تقرری کے لیے  قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا ۔ 5 ایسے لوگوں کے نام کونسل کو ارسال کیے گئے جو نامزدگی میں شامل نہیں تھے، جس کی وجہ یہ سمری متعلقہ آئینی شق کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے واپس کردی گئی۔وکیل بیرسٹر نواز نے کہا کہ اس عمل کے بعد دوسرے مرحلے میں خصوصی طور پر ایسے 10 سے 14 نام کونسل کو ارسال کیے  گئے جس کی دونوں چیف جسٹس سے مشاورت اور تجویز نہیں لی گئی تھی جبکہ صدر کے خط و کتابت کی وجہ سے گمراہ ہونے کے باعث کونسل نے غلط فہمی میں غیر قانونی تجویز جاری کی۔اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ محمد منیر ہائی کورٹ میں ترقی سے قبل 2 سال تک ڈسٹرک جج رہ چکے ہیں لہذا وہ قانونی ضروریات پر پورا نہیں اترتے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ کے جج کی تقرری کے لیے چیف جسٹس کے مشورے کو نظر انداز کیا گیا جو کسی طرح بھی درست اقدام نہیں تھا۔