شبلی فراز نے  اپوزیشن کے  این آر او مانگنے کی دستاویزات شیئر کردیں

یہ ہیں وہ  ذرائع اور دستاویزات جن کی وساطت سے این آر او مانگا گیا وفاقی وزیر اطلاعات

اسلام آباد (ویب ڈیسک )وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹرشبلی فراز وہ دستاویزات منظر عام پر لے آئے جن کے ذریعے ان کے مطابق  اپوزیشن  حکومت سے این آر او مانگ رہی ہے۔وفاقی  وزیر نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں احتساب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کی مجوزہ ترامیم کے صفحات شیئر کیے۔اس کے ساتھ انہوں نے لکھا کہ کئی دنوں سے مسلم لیگ نواز لمیٹڈ مطالبہ کررہی تھی کہ این آر او کس نے مانگا؟ تو حضور والا یہ ہیں وہ ذرائع اور دستاویزات جن کی وساطت سے این آر او مانگا گیا۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر مرتبہ مسلم لیگ (ن)کی قیادت نے ملک اور قانون سے فرار کا راستہ اختیار کیا ہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے جو دستاویزات شیئر کی اس میں کہا گیا تھا کہ  نیب کے حوالے سے تحقیقات کا حکم دینے کے بعد یا انکوائری کے وقت، ٹرائل شروع ہونے سے پہلے یا بعد میں یا اپیل کے زیر التوا ہونے کے دوران سرکاری عہدہ رکھنے والا یا کوئی بھی دوسرا شخص کسی جرم کے نتیجے میں بنائے گئے اثاثے یا حاصل کیے گئے فوائد واپس کرنے کی پیش کش کرے تو اس آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب، کیس کے حقائق اور پہلوں پر غور کر کے اپنی صوابدید اور جو شرائط و ضوابط وہ ضروری سمجھیں انہیں مدِ نظر رکھتے ہوئے اس قسم کی پیشکش کو قبول کرسکتے ہیں۔علاوہ ازیں اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر سرکاری عہدہ رکھنے والا کوئی بھی دوسرا شخص چیئرمین نیب کی متعین کردہ رقم واپس کرنے پر راضی ہو تو اس کیس کو سرکاری عہدہ رکھنے والے یا کسی بھی شخص یا شریک ملزم کی رہائی سے متعلق کیس کو منظوری کے لیے عدالت یا اپیلیٹ کورٹ میں بھیجا جائے گا۔دستاویز میں لکھا گیا کہ اگر چیئرمین نیب اس قسم کی پیشکش سے انکار کردیں تو سرکاری عہدیدار یا کوئی بھی شخص اس پیشکش پر غور یا منظوری کے لیے براہ راست عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔شبلی فراز کی شیئر کردہ مجوزہ ترامیم کے مطابق نیب جرم کے ارتکاب یا رقوم کی منتقلی کو 5 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد مبینہ جرم کی تحقیقات، تفتیش یا ریفرنس دائر نہیں کرے گا۔ دستاویز میں یہ درج تھا کہ قومی احتساب بیورو مندرجہ ذیل صورتحال میں الزامات پر کوئی ایکشن نہیں لے گا کہ ایسی شکایت جو نامعلوم یا فرضی نام سے کی گئی ہو۔جس میں عوام کا پیسہ شامل نہ ہو۔اوررقم ایک ارب روپے سے کم ہو۔