اسلام آباد (ویب ڈیسک)

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے پی آئی اے کا امیج تباہ کیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پائلٹس کی لائسنس معطلی اور ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی تعیناتی سے متعلق کیس پر سماعت کی، عدالت نے سیکرٹری سول ایوی ایشن کے بطور ڈی جی سول ایوی ایشن فیصلوں پر سوال اٹھا دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ایگزیکٹیو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی لیکن بتایا جائے کہ کس قانون کے تحت سیکرٹری ایوی ایشن کو ڈی جی کا اختیار دیا گیا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ کابینہ نے سیکرٹری کو دوبارہ ڈی جی کا چارج دے دیا ہے، میں نے حکومت کو بتایا ہے کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے، وفاقی حکومت نے آئندہ 2 سے 3 روز میں ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سیکرٹری ایوی ایشن نے عدالت کو بتایا کہ جعلی لائسنس یافتہ پائلٹس کی تعداد 82 بنتی ہے50 پائلٹس کے لائسنس منسوخ کردیئے ہیں۔32 پائلٹس کے لائسنس مشکوک ہیں۔

عدالت کے استفسار پر سیکرٹری سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بتایا کہ پارلیمنٹ میں 262 پائلٹ کی جعلی ڈگری کا بیان دیا گیا، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایک غلط انفارمیشن پر دیئے گئے بیان نے پی آئی اے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے پی آئی اے کا امیج تباہ کیا گیا، ملکی اور پی آئی اے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا کون ذمہ دار ہے۔

سیکرٹری ایوی ایشن نے عدالت کو بتایا کہ 262 جعلی لائسنس یافتہ پائلٹ سے متعلق ایوی ایشن ڈویژن نے رپورٹ دی تھی، اٹارنی جنرل نے اعتراف کیا کہ اس پورے معاملے کو بہت غلط طریقے سے ہینڈل کیا گیا۔