قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے  اسپیکر ڈائس پر دھاوا بول دیا، ایوان کے تقدس کی دھجیاں اڑادی گئیں
پارلیمانی  تاریخ میں پہلی مرتبہ 20 سارجنٹس کے حفاظتی حصار میں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے کارروائی چلائی
ارکان لڑنے کیلئے للکارتے رہے، ایوان  میں غلیظ ریمارکس کی بازگشت سنائی دی
اپوزیشن کی خاتون رکن سے  پلے کارڈ  چھین لیا گیا، بجلی چور، آٹا چور، چور چور کے نعروں پر مبنی ریکارڈ کا رخ ڈپٹی اسپیکر کی طرف کردیا گیا
وفاقی وزیر نے کورم کی نشاندہی کردی اور حکومتی ارکان ایوان سے نکل گئے، ساری کارروائی کے دوران اپوزیشن کی طرف سے سیٹیاں بجتی رہیں
سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے کی آئینی ترمیم اور یوم یکجہتی کشمیر کی قرارداد دھری کی دھری رہ گئیں۔

 اسلام آباد(ویب  نیوز)قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے اسپیکر ڈائس پر دھاوا بول دیا، ایوان کے تقدس کی دھجیاں اڑادی گئیں، پارلیمانی  تاریخ میں پہلی مرتبہ 20 سارجنٹس کے حفاظتی حصار میں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے کارروائی چلائی، ارکان لڑنے کیلئے للکارتے رہے، ایوان  میں غلیظ ریمارکس کی بازگشت سنائی دی، اپوزیشن کی خاتون رکن سے پلے کارڈ  چھین لیا گیا، بجلی چور، آٹا چور، چور چور کے نعروں پر مبنی ریکارڈ کا رخ ڈپٹی اسپیکر کی طرف کردیا گیا، وفاقی وزیر نے کورم کی نشاندہی کردی اور حکومتی ارکان ایوان سے نکل گئے، ساری کارروائی کے دوران اپوزیشن کی طرف سے سیٹیاں بجتی رہیں، کئی گھنٹوں تک دونوں اطراف سے ہنگامہ آرائی سلسلہ جاری رہنے کے بعد اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں  پارلیمانی تاریخ کی شدید ہنگامہ آرائی ہوئی، ایجنڈے کے مطابق کارروائی کو آگے بڑھایا گیا تو اپوزیشن  جماعتوں کے ارکان نے  چور چور، بجلی چور، آٹا چور اور دیگر متنازع نعروں پر مبنی  پلے کارڈز لہرا دئیے۔ نعرہ بازی شروع کردی گئی۔ اسپیکر ڈائس پر دھرنا دیدیا گیا، جیسے ہی کوئی رہنما  اظہار خیال کیلئے اٹھتا مخالف نشستوں سے نعرہ بازی شروع ہو جاتی۔ ایوان میں سینیٹ انتخابات سے متعلق آئینی ترمیمی بل پیش کرنے کی تحریک پر اظہار خیال کیا گیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اگر ہمیں بات نہیں کرنے دیں گے ہم انہیں بھی نہیں بولنے دیں گے۔ پی ڈی ایم کے استعفے کہاں گئے، رات کی تاریکی میں یہ کہاں گئے تھے۔ پیپلزپارٹی پنجاب سے ایک سابق وزیراعظم کو سینیٹ آف پاکستان میں لانا چاہتی ہے  یہ اپنا چیئرمین سینیٹ لانا چاہتے ہیں، پنجاب میں کسی جماعت کو عددی برتری کے برعکس سینیٹر کیسے مل سکتا ہے۔ یہ سندھ میں مسلم لیگ ن کو ووٹ دینا چاہتے ہیں اور مسلم لیگ ن سے  پنجاب میں ووٹ لینا چاہتے ہیں۔ خریدوفروخت کرنا چاہتے ہیں  یہی وجہ ہے کہ ہم شو آف ہینڈ کی ترمیم لائے ہیں ، ہم نے ان کو بے نقاب کردیا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے کسی  رہنما کو اس موقع پر بولنے کا موقع نہ ملنے پر اپوزیشن ارکان نے  اسپیکر ڈائس پر احتجاج کی شدت کو بڑھا دیا، اس دوران  قاسم سوری نے فلور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کو دیدیا، سید نویدقمر بار بار ڈپٹی اسپیکر کی  توجہ یکطرفہ کارروائی کی طرف دلواتے رہے جبکہ  اپوزیشن کے دیگر ارکان چور چور کے بینر لہراتے وسل بجاتے اور نعرہ بازی کرتے رہے۔کسی  اپوزیشن رہنما کو بولنے کی اجازت نہ ملنے پر سید نوید قمر انتہائی غصے میں آگئے اسپیکر ڈائس  پر جاکر قاسم سوری  سے براہ راست مخاطب ہوگئے اس دوران  حکومت کو اپوزیشن سے مذاکرات کی رولنگ بھی جاری کی گئی۔ فواد چوہدری نے تقریر کرتے ہوئے  وزراء اپوزیشن کی طرف جانے سے روک دیا اور اپنا خطاب جاری رکھا۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ اور بھارت میں ایوان بالا کے انتخابات اوپن طریقے سے کرانے کی قانون سازی ہوچکی ہے۔ بھارت میں راجیہ سبھا کے انتخابات اوپن طریقے سے کرانے کیلئے طویل بحث ہوئی  بھارت میں بھی ایوان بالا کے انتخابات میں خریدوفروخت ہوتی تھی انہوں نے 2010 میں ضروری  قانون سازی کرلی۔ وزیرسائنس و ٹیکنالوجی کی تقریر کے دوران کراچی سے تحریک انصاف کے رکن   عطاء اللہ خٹک نے  اسپیکر ڈائس کی طرف بڑھتے ہوئے ایک خاتون سے حکومت مخالفت پلے کارڈ  چھین لیا اور اپنی نشست پر اسے لے جاکر چوروں کی نانی کے الفاظ تحریر کردئیے۔ اس معاملے پر ان کی سابق ڈپٹی اسپیکر مرتضی جاوید عباسی سے تلخ کلامی بھی ہوئی تاہم انہوں نے پلے کارڈ نہ دیا جس سے ایوان میں کشیدگی اور بدمزگی بڑھ گئی۔ اپوزیشن کو بولنے کا موقع نہ دینے پر ایک موقع پر سیدنوید قمر انتہائی غصے میں آگئے۔ ڈپٹی اسپیکر کو مخاطب ہوئے سارجنٹس نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو سیدنوید قمر نے  اسپیکر ڈائس کا مائیک اکھاڑنے کی کوشش کی۔ بعض حکومتی ارکان بھی اسپیکر ڈائس پر آگئے ایوان کی یکطرفہ کارروائی جاری رہنے پر اپوزیشن کے احتجاج کی شدت بڑھتی گئی،فواد چوہدری نے  کہاکہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس ایوان میں انتہائی غلیظ گالیاں دی گئی ہیں ایک رکن کو اتنے آداب  اور سلیقہ  بھی نہیں ہے کہ اس نے  یہاں جوتا لہرا دیا۔ ڈپٹی اسپیکر نے بھی تیسرے وفاقی وزیر اسد عمر کو آئینی ترمیم پر بولنے کیلئے فلور دیدیا۔ اسد عمر نے کہاکہ ہم اپوزیشن کو بے نقاب کردیا ہے۔ انہوں نے  چور چور کے  پلے کارڈز اصل میںاپنے بارے میں اٹھارکھے ہیں۔نواز شریف، آصف علی زرداری اور ان کے دیگر قائدین کے خلاف سخت کارروائی ہوئی انہیں معلوم ہے کہ اب حواریوں کیخلاف ایکشن ہورہا ہے۔ اس دوران ڈائس پر عطاء اللہ خٹک کے آنے پر آغا رفیع اللہ سے سخت تلخ کلامی ہوگئی ایک دوسرے کو مارنے کیلئے لپکے، دونوں اطراف سے ارکان نے  بھی آستینے چڑھا لیں۔ تصادم کا خطرہ بھانپتے ہوئے اجلاس کی کارروائی معطل کردی گئی۔20منٹ کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو اسد عمر نے تقریر جاری رکھی جبکہ 20 سارجنٹس نے ڈپٹی اسپیکر کے سامنے حفاظتی حصار باندھ لیا اور انہوں نے اس حصار میں  کارروائی چلائی، جس کے بعدسابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو فلور دیدیا گیا،  اس موقع پر راجہ پرویز اشرف نے بھی  شکایت کی کہ صدر نشین نظر نہیں آرہے ہیں جس پر ڈپٹی اسپیکر کے سامنے سے  سارجنٹس کوہٹنے کی ہدایت جاری کی گئی۔ سابق وزیراعظم کی تقریر کے دوران حکومتی ارکان نے احتجاج شروع کردیا۔ شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری کی تقریروں کے دوران لوٹے لوٹے کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے چور چور کے نعرے لگانے شروع کردئیے۔ بعض ارکان نے راجہ رینٹل، راجہ رینٹل ریمارکس کسے۔ وفاقی وزیرفواد چوہدری نے کورم کی نشاندہی کردی۔ حکومتی ارکان اٹھ کر لابی میں چلے گئے تاہم وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان، وزیر ہوائی بازی غلام سرور خان نے کورم کے معاملے پر اپنی ہی حکومت کا ساتھ نہیں دیا ، بعض دوسرے ارکان بھی بیٹھے رہے، گنتی کروانے پر کورم پورا نکلا۔ حکومت کو کورم کی نشاندہی پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ راجہ پرویز اشرف کی تقریر کے دوران حکومتی ارکان کی نعرہ بازی جاری رہی ایک موقع  سابق وزیراعظم کی  بھی زبان پھسل گئی کہاں ہاں راجہ رینٹل۔ مجھے فخر ہے کہ میں یہ اہم منصوبے لے کر آیا اور اس معاملے میں باعزت بری ہوا۔مشیر احتساب شہزاد اکبر کو فلور دیا گیا تو انجینئر خرم دستگیر نے کورم کی نشاندہی کردی، اپوزیشن کے تمام ارکان لابی میں چلے گئے کورم پورا نہ ہونے پر کارروائی نہ ہوسکی ایوان میں اجلاس کی کارروائی غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرنے کا صدارتی فرمان پڑھ دیا گیا۔ سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے کی آئینی ترمیم اور یوم یکجہتی کشمیر کی قرارداد دھری کی دھری رہ گئیں۔