اسلام آباد (صباح نیوز)

سپریم کورٹ نے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹانے کے ریمارکس دیے ہیں ۔وزیراعظم نے خود کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے، کیا پارلیمنٹیرینز پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گھبرا رہے ہیں، وفاقی صوبائی حکومتیں اپنے اپنے راستے اختیار کیے ہوئے ہیں، ہر سیاستدان اپنا علیحدہ بیان دے رہا ہے ۔پیر کو  سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس پر ازخود نوٹس کیس پر سماعت کی اور اس ایشو پر حکومتی اقدامات کا جائزہ لیا۔عدالت نے کہا کہ سمجھ نہیں  آ رہی کس قسم کی ٹیم کورونا پر کام کر رہی ہے، اعلی حکومتی عہدیداران پر سنجیدہ الزامات ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ظفر مرزا کس حد تک شفاف ہیں کچھ نہیں کہہ سکتے، معاونین خصوصی کی پوری فوج ہے جن کے پاس وزرا کے اختیارات ہیں، کئی کابینہ ارکان پر جرائم میں ملوث کے مبینہ الزامات ہیں ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ حکومتی کابینہ 50 رکنی ہوگئی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا جبکہ وزرا اور مشیروں کی فوج در فوج آپ کے پاس ہے۔  کورونا وائرس کی روک تھام کے اقدامات کے حوالے سے سندھ حکومت کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے  کہا کہ حکومت سندھ کی کارکردگی افسوسناک ہے۔ کراچی میں 11 یونین کونسلز سیل کرنے کی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی اور نہ سندھ حکومت کو سیل شدہ یونین کونسلز میں متاثرہ افراد کی تعداد کا علم ہے، سیل ہونے والی یونین کونسلز میں کھانا اور طبی امداد فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں اور سندھ حکومت 8 ارب روپے کا راشن تقسیم کرنے کے شواہد بھی نہ پیش کر سکی۔جسٹس گلزار نے کہا کہ مشیروں کو وفاقی وزرا کا درجہ دے دیا گیا ہے اور مبینہ طور پر کرپٹ لوگوں کو مشیر رکھا گیا ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ سر آپ ایسی بات نہ کریں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت ظفر مرزا کیا ہیں اور اس کی کیا صلاحیت ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن سے نقصان ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریمارکس دینے میں بہت احتیاط برت رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے آپ نے حکومت کی اجازت سے آٹا بھیجا پھر حکومت کی اجازت سے چینی باہر بھیجی اب آپ طبی آلات حکومت کی اجازت سے درآمد کریں گے، آپ ہر کام حکومت کی اجازت سے کرتے ہیں۔جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ظفر مرزا نے جو بھی کیا حکومت کی اجازت سے کیا اور اس معاملے پر انکوائری جاری ہے۔اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ظفر مرزا کے خلاف کس معاملے کی تحقیقات جاری ہے؟ جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایک شہری نے وفاقی تحیقیقاتی ادارے  میں درخواست دی تھی کہ انہوں طبی سامان بغیر ڈیوٹی چین بھجوایا۔چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ظفر مرزا نے عدالتی ہدایت پر عمل نہیں کیا، عدالت کے سابقہ حکم میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب نہیں آئے ہیں۔چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کو حکومتی ٹیم نے صرف اعداد و شمار بتائے، بریفننگ میں حکومتی ٹیم سے 5 سوال پوچھے تھے، حکومت کی ٹیم کسی ایک سوال کا بھی جواب نہیں دے سکی۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ کوئی ملک کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے پیشگی تیار نہیں تھا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون سازی کے حوالے سے حکومت کا کیا ارادہ ہے؟ کیا ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے پارلیمان قانون سازی کرے گا؟ کئی ممالک ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کر چکے ہیں۔جسٹس قاضی امین احمد نے استفسار کیا کہ سماجی فاصلہ رکھنے کے لیے حکومت کیا عملدرآمد کروا رہی ہے؟ جمعہ کے اجتماع پر اسلام آباد میں جو ہوا کیا کسی کو نظر آیا؟۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سماجی فاصلے کے لیے عوام کو خود ذمہ داری لینا ہوگی، پولیس یا فوج 22 کروڑ عوام پر فاصلہ رکھنے کے لیے کیسے زبردستی کرسکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ریاستی مشینری کو اجلاسوں کے علاوہ بھی کام کرنے ہوتے ہیں، کیا ملک بند کرنے سے پہلے اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا؟انہوں نے استفسار کیا کہ حکومتی مشیران اور وزرا مملکت پر کتنی رقم خرچ کی جا رہی ہے اور ان مشیران وزرا پر اتنی رقم کیوں خرچ کی جا رہی ہے، مشیران معاونین کابینہ پر حاوی ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے کابینہ کے فوکل پرسن بھی مشیر ہیں، وزیراعظم کی کابینہ غیر مثر ہوچکی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ معذرت کے ساتھ لیکن وزیراعظم نے خود کو الگ تھلگ رکھا ہوا ہے، کیا پارلیمنٹیرینز پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گھبرا رہے ہیں، وفاقی صوبائی حکومتیں اپنے اپنے راستے اختیار کیے ہوئے ہیں، ہر سیاستدان اپنا علیحدہ بیان دے رہا ہے۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سیاسی لوگوں کے بیانات پر نہ جائے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی صلاحیت کے مطابق تدابیر اختیار کر رہی ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں اتنے بڑے مینوفیکچررز موجود ہیں کیا وہ حفاظتی کٹس نہیں بنا سکتے۔  جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ ایشو عوام کی آزادی اور صحت کا ہے، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو غذا بھی غیر معیاری فراہم کی جا رہی ہے، وڈیو دیکھی ڈاکٹرز کھانے کے بجائے عام آدمی سے حفاظتی کٹس مانگ رہے ہیں۔انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو حفاظتی کٹس کی فراہمی ترجیح ہونی چاہیے، ملک میں کورونا کی ٹیسٹ کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ سماجی فاصلے کے لیے لوگوں کو آگاہی کون دے گا؟ ملک میں معیشیت کا پہیہ چلانا ہوگا، ہم لوگوں کو بھوکا مرنے نہیں دے سکتے۔جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزیراعظم کو اس بات کا ادراک ہے کہ لوگ بھوک سے مر جائیں گے اسی لیے وہ کچھ کاروبار کھولنا چاہتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ حکومت کورونا سے تحفظ کا آرڈیننس بھی لا رہی ہے۔سندھ کی صورتحال کے حوالے سے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلی سندھ نے سنی سنائی باتوں پر کراچی کے کئی علاقے بند کردیئے، کل کو پورا کراچی بند کردیں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قومی رابطہ کمیٹی کے آج کے اجلاس سے کیا ہوگا؟ وہ وقت آرہا ہے لوگ کراچی میں پولیس اور سرکاری گاڑیوں پر حملے کریں گے۔جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ حکومت لوگوں کو سماجی فاصلے سے متعلق ہدایات دے سکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت لوگوں کو سپورٹ کرے تو وہ بات مانیں گے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے حکومت سندھ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں 11 یونین کونسلز (یو سیز) بند کردی گئیں، کیا وجہ تھی کہ ان یونین کونسلز کو بند کیا گیا؟ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ان علاقوں سے کیسز رپورٹ ہوئے تھے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان علاقوں سے ایک کیس بتا دیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ (متاثرہ مریضوں کے) نام نہیں دے سکتے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہ یہی تو مسئلہ ہے، وزیراعلی کے کانوں میں کچھ بھی کہہ دو اور سب بند کردو، کیا اس طریقے سے حکومت چلانی ہے؟۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا ہم اپنا بہترین کام کر رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں تو ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا، آپ ایک کورونا کیس کا تو بتا نہیں سکے۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ لاک ڈان کے باعث دوسری بیماریوں کی وجہ سے نہ جانے کتنے جنازے اٹھیں گے، وہ وقت آ رہا ہے جب جتھے حملے کریں گے، کلفٹن، ایوان صدر اور ضیا الدین شاہراہوں پر کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت کے دعوں اور زمینی حقائق میں بہت فرق ہے، کل لائنز ایریا کراچی میں بھی حالات بہت خراب تھے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سماجی فاصلے کے لیے صرف ہدایات جاری کرسکتے ہیں جس پر جسٹس قاضی امین احمد نے ریمارکس دیے کہ لوگ سماجی فاصلوں پر عمل نہ کریں تو اس کا مطلب ہے کہ سرنڈر کردیں، کیا سندھ حکومت عوام کے آگے سرنڈر کر رہی ہے؟انہوں نے استفسار کیا کہ لائنز ایریا میں کھانا فراہم کرنے کے لیے حکومت کی کیا منصوبہ بندی ہے؟ لوگ بھوک سے تلملا رہے ہیں کھانا نہ ملا تو خانہ جنگی ہوگی، کورونا ہمارے سیاسی نظام کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔جسٹس قاضی امین نے مزید کہا کہ ہر سیاسی جماعت دوسری پارٹی کے خلاف پریس کانفرنس کر رہی ہے، پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ہونا چاہیے، محترم صدر مملکت آرٹیکل 54 کے تحت پارلیمان کا مشترکہ اجلاس کب بلائیں گے؟جسٹس قاضی امین نے کہا کہ جنہیں گھروں میں بند کیا گیا ہے انہیں کھانا بھی دیں، غریب آدمی سڑک پر نکلے تو جوتے مارے جاتے ہیں، کل ایک بڑے صاحب کا جنازہ تھا لوگ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے تھے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سندھ حکومت حفاظتی تحفظ کی اشیا  کس نرخ پر خرید رہی ہے جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ پی پی ایز کے مختلف نرخ ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل کا مزید کہنا تھا کہ سندھ میں مقامی سطح پر کورونا سے بچا کی حفاظتی کٹس کی تیاری شروع ہو چکی اور روزانہ 5 ہزار کٹس تیار ہو رہی ہیں۔جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ سندھ میں لوگوں کی مدد کے لیے حکومتی سطح پر کیا اقدامات کیے گئے ہیں جس کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ سندھ میں 5 لاکھ سے زائد لوگوں کو راشن فراہم کیا گیا۔جسٹس سجاد علی شاہ نے دریافت کیا کہ کہاں اور کس کو راشن فراہم کیا، سندھ پولیس تو جعفریہ ڈیزاسٹر سیل (جے ڈی سی) والوں کو لوٹ رہی ہے، 10روپے کی چیز دے کر 4 وزیر تصویر بنانے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔جسٹس سجاد علی شاہ نے مزید کہا کہ سندھ میں گٹر کا ڈھکن لگانے کے لیے 4 لوگ کھڑے ہو کر تصویر بنواتے ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ سندھ میں راشن تقسیم کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ضلعی کونسل کے ذریعے راشن تقسیم کیا جاتا ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ راشن دینے کے لیے کیا طریقہ کار مقرر ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ زیادہ تر لوگ یومیہ اجرت والے ہیں۔جسٹس سجاد علی شاہ نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کہاں سے راشن خریدا کہاں دیا؟ یا ایک ہاتھ سے لیا دوسرے ہاتھ سے دینے والا کام یہاں بھی کیا؟ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 5 لاکھ 4 ہزار 80 خاندانوں کو 15 دن کا راشن دیا گیا ہے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں جن کا ڈیٹا حکومت کے پاس نہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو خود عوام تک رسائی یقینی بنانا ہوگی، اسلام آباد میں بیٹھ کر اجلاس کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، صرف الیکٹرانک ڈیٹا پر ہی انحصار نہ کیا جائے۔ بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ مشکل حالات میں حکومت ڈلیور نہیں کر پائی تو کیا فائدہ؟ میرے گھر پینٹ کرنے والے نے راشن بھیجنے کے لیے مجھے میسج کیا، ایسے دیہاڑی دار طبقے کے لیے حکومت کو عملی کام کرنا ہوگا۔سندھ کی صورتحال کے بارے میں چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ لاک ڈان کا مطلب کرفیو ہوتا ہے، انہوں نے دریافت کیا کہ کراچی کی متاثرہ 11 یونین کونسلز کی کتنی آبادی ہے؟ کیا ہر مکین کا ٹیسٹ ہوگا؟جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ متاثرہ یونین کونسلز کی آبادی کا درست علم نہیں، انہوں نے بتایا کہ متاثرہ یونین کونسل میں کھانے پینے کی دکانیں کھلی ہیں۔چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ جن رہائشیوں کے پاس وسائل نہیں وہ کیا کریں گے؟ کل پورا سندھ رو رہا تھا، میرپور خاص، سکھر اور تھرپارکر میں چیخ و پکار ہے، سندھ حکومت کے دعوں اور زمینی حقائق میں بہت فرق ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ 5 لاکھ 4 ہزار 80 خاندانوں کو 15 دن کا راشن دیا گیا ہے جس میں ہر خاندان میں افراد کا تخمینہ لگا کر راشن دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر تو ایک خاندان کے لیے ایک من آٹے کی بوری چاہیے ہوگی، آپ نے راشن دینے کا کہہ دیا ہم نے سن لیا، اب دیکھتے ہیں قوم مانتی ہے یا نہیں، سندھ میں لوگ سڑکوں پر ہیں، سندھ کے لوگ کہہ رہے ہیں حکومت نے ایک ٹکا بھی نہیں دیا۔جسٹس سجاد علی نے استفسار کیا کہ سندھ حکومت بتائے کہاں سے راشن خریدا کہاں دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سوالات صرف سندھ کے لیے نہیں بلکہ چاروں صوبوں کے لیے ہیں، خیبر پختونخوا تو راشن کے بجائے نقد رقم بانٹ رہا ہے۔چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ایک وقت تھا ملکی معیشت کی بنیاد صنعتوں پر تھی، اب صنعتیں گودام بن چکی ہیں، صنعتیں بند ہونے کی پرواہ پارلیمان کو ہے نہ حکومت کو، نجی سرمایہ کاری نہیں آ رہی تو حکومت خود صنعتیں لگائے، آج وزیراعظم قرض واپسی کے لیے مہلت کی اپیل کر رہے۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ نیشنلائزیشن سے صنعتوں کو نقصان ہوا جو آج بھی بھگت رہے ہیں۔سماعت کے دوران کابینہ میں حالیہ رد و عمل پر بھی ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مشیروں اور معاونین کی فوج سے کچھ نہیں ہونا، وزیراعظم کی ایمانداری پر کوئی شک و شبہ نہیں، وزیراعظم کے پاس صلاحیت ہے کہ کام کے 10 بندوں کا انتخاب کر سکیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ذرا سی مشکل آتے ہی اِدھر کا مہرا ادھر لگا دیا جاتا، شاید یہ معلوم نہیں کہ اگلا مہرا پہلے ہی لگائے جانے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلی بار پاکستان کو ایماندار وزیراعظم ملا ہے، پاکستان کے پاس یہ آخری موقع ہے بہتری نہ آئی تو نہ جانے کیا ہوگا۔اس حوالے سے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خدشہ ہے کہ ہم یہ آخری موقع بھی ضائع نہ کر دیں گے، پارلیمان کا اجلاس بلانے میں کیا ڈر ہے؟ عدالت، پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا حکم نہیں دے سکتی۔جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت کی آبزرویشن سے حکومت کو آگاہ کروں گا، چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمان نے ہی اس مسئلے کو حل کرنا ہے، روز روز بولنے والے سیاستدان اب بالکل خاموش ہیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کسی کی خاموشی پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا، زیادہ لوگ اپنا کام کر رہے ہیں گندے انڈے تھوڑے ہیں، سویلین ہو یا فورسز سب اپنی کوشش کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت کے علاوہ سب حکومتوں کی تفصیلات ہمارے پاس ہیں، کچھ لوگ ایسے حالات میں بھی پیسہ بنا رہے ہیں، کیا کرپٹ عناصر کو لیڈ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ زندگی بچانے کے معاملات میں بھی پیسے کھائے جائیں تو مقصد ختم ہو جاتا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے حوالے سے اہم اجلاس ہونے والا ہے، تمام تحفظات حکومت کے سامنے رکھوں گا۔سماعت میں وکیل امان اللہ کنرانی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پنجاب حکومت نے ایک ضلع سے دوسرے میں جانے کے لیے کورونا سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا ہے جس پر سپریم کورٹ نے تشویش کا اظہار کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب حکومت یہ پابندی کیسے لگا سکتی ہے، کس حکم کے تحت یہ پابندی لگائی گئی، کیا آرٹیکل 15 وفاقی حکومت کا دائرہ اختیار ہے؟جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ کورونا وائرس کے پھیلا کو روکنے کے لیے آرڈیننس 2020 کے ذریعے پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔بعدازاں سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں وفاق, چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان سے تفصیلی رپورٹس اور آج ہونے والے اعلی سطح کے اجلاس کے فیصلوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔عدالت نے حکم نامے میں نشاندہی کی کہ سندھ حکومت نے کراچی میں 11 یونین کونسلز سیل کرنے کی ٹھوس وجہ نہیں بتائی اور حکومت کو سیل شدہ یونین کونسلز میں متاثرہ افراد کی تعداد کا بھی علم نہیں۔عدالت کا کہنا تھا کہ سیل ہونے والی یونین کونسلز میں کھانا اور طبی امداد فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں، سندھ حکومت 8 ارب روپے کا راشن تقسیم کرنے کے شواہد بھی پیش نہیں کر سکی۔عدالت نے حکم نامے میں تحریر کیا کہ سندھ حکومت کی کارکردگی افسوسناک ہے، سندھ بھر سے کھانا نہ ملنے کی شکایت پہنچ رہی ہیں ساتھ ہی سندھ حکومت سے جواب طلب کرلیا کہ بتایا جائے راشن کہاں سے اور کتنے میں خریدا گیا اور کتنا راشن کس کو دیا؟ساتھ ہی سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ڈاکٹرز کی ضروریات پوری کرنے اور ڈاکٹرز کو کھانا نہ ملنے کی شکایات کے بھی فوری ازالے کا حکم دیا۔مزید یہ کہ اسلام آباد انتظامیہ اور پنجاب حکومت سے بھی کورونا وائرس سے نمٹنے اور امدادی کام کی تفصیلات طلب کرلی گئیں۔بعدازاں عدالت عظمی نے کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت آئندہ پیر تک کے لیے ملتوی کردی۔