مفرور ملزم کو ریلیف دینا مفاد عامہ میں نہیں، اسلام آبادہائی کورٹ

درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجا سے آئندہ سماعت پر دلائل طلب

اسلام آباد(ویب ڈیسک )اسلام آباد ہائیکورٹ نے مفرور اور اشتہاری ملزمان کی تقاریر نشر کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ کسی مفرور ملزم کو ریلیف دینا مفاد عامہ میں نہیں ہے، ساتھ ہی عدالت نے درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجا سے آئندہ سماعت پر دلائل طلب کرلیے۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف کی تقاریر پر پابندی کیخلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من نے کی۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ حالیہ برسوں میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عدلیہ کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑا، یہ بہت سنجیدہ سوال ہے، درخواست گزار بتا دیں کہ کس کے لیے ریلیف چاہ رہے ہیں اور پیمرا نے کس پر پابندی عائد کی ہے۔اس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پیمرا نے کسی کے خلاف حکم پاس نہیں کیا، اس پر عدالت نے کہا کہ یہاں پر موجود درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں، اس آرڈر سے 2 لوگ متاثر ہیں، جس پر سلمان اکرم راجا نے یہ کہا کہ دو نہیں ہزارواں افراد متاثر ہیں۔ان کی بات پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو متاثرہ فریق ہے وہ پیمرا کے حکم کیخلاف اپیل کرسکتا ہے، ساتھ ہی عدالت نے پوچھا کہ درخواست گزار کس مفرور کا انٹرویو آن ایئر کروانا چاہتے ہیں۔عدالت نے کہا کہ اس طرح تو پھر تمام مفرور ملزمان کو اجازت دی جائے؟ مفرور ملزم کی تو شہریت منسوخ ہوسکتی ہے، جس پر سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔اس پر عدالت نے کہا کہ مفرور ملزم کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ منسوخ کیا جاتا ہے، مفرور ملزم پہلے عدالت کے سامنے سرنڈر کریں پھر وہ قانونی حقوق سے فائدہ اٹھائیں، مفرور ملزم خود عدالت سے رجوع نہیں کر رہے۔عدالتی ریمارکس پر سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ معلومات تک رسائی کا ہمارا حق متاثر ہورہا ہے، آرٹیکل 19 اے آزادی اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے، اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مفرور ہونا بہت سنجیدہ بات ہے، ہر مفرور چاہے گا اسے آن ایئر ٹائم دیا جائے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت نے مفرور ملزم کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی مگر الزام عدلیہ پر لگا، عدالت پیمرا کا آرڈر منسوخ کرتی ہے تو تمام مفرور کو آن ایئر جانے کا حق ملے گا،عدالت مفرور ملزمان کو ریلیف نہیں دے سکتی۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ پارلیمنٹ کا سوال نہیں بلکہ عدلیہ پر اعتماد کا ہے، یہ عدالت مفرور کو ریلیف نہیں دے سکتی، غیرقانونی حکم کو بھی کوئی مفرور کہیں چیلنج نہیں کرسکتا، اگر کسی نے کوئی اپیل ہی دائر نہیں کی تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی اس آرڈر سے متاثر ہی نہیں، جو قانون ایک آدمی کے لیے ہوگا اس کا اطلاق سب پر ہوگا۔اس پر سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ درخواست گزار چاہتے ہیں کہ انہیں عوام تک معلومات پہنچانے سے نہ روکا جائے، اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی تقریر بھی نشر کی جائے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہم کسی ایک شخص کی بات نہیں کر رہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مفرور پرویز مشرف یا کسی اور کے لیے ریلیف مانگ رہے ہیں۔ان کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی مفرورعدالت نہیں آیا، یہ درخواست اتنی سادہ نہیں، مفرور ملزمان پر روزانہ بات کی جاتی ہے، صرف انہیں ایئر ٹائم دینے سے روکا گیا ہے۔ساتھ ہی عدالت نے سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ کوئی شخص مفرور کیوں ہوتا ہے؟ عدالت مفرور کیوں قرار دیتی ہے؟ اس پر سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ ملزم کی غیر حاضری میں ٹرائل نہیں چل سکتا جس کی ایک وجہ ہے۔دوران سماعت سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ پیمرا کا آرڈر صحافیوں اور میڈیا پرسنز کے لیے ہے اس لیے وہ متاثرہ فریق ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پورے جوڈیشل سسٹم (عدالتی نظام) کا امتحان ہے، آپ چاہتے ہیں کہ تمام مفرور ملزمان کو ریلیف دیا جائے، کسی مفرور ملزم کو ریلیف دینا مفاد عامہ میں نہیں، آپ درخواست گزاروں سے اس سے متعلق مزید ہدایات لے لیں، اظہار رائے کی آزادی بہت ضروری ہے مگر یہاں پر سوال کچھ مختلف ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کی درخواست سے ریلیف تمام مفرور ملزمان کو ملے گا جو عدالت نہیں دینا چاہتی، اگر کسی کو عدالتی نظام پر اعتماد نہیں اور وہ بھاگ جاتا ہے تو اسے عدالت سرینڈر کرنے تک ریلیف نہیں دیتی، اگر کوئی مفرور ہو تو وہ عدالت کا غیر قانونی آرڈر بھی چیلنج نہیں کر سکتا۔بعد ازاں عدالت نے سلمان اکرم راجا کو کہا کہ آپ کیس کی تیاری کرکے آئیں اور آئندہ سماعت پر درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں۔جس کے ساتھ ہی معاملے پر مزید سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔خیال رہے کہ یکم اکتوبر کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)نے تمام ٹی وی چینلز کو مفرور اور اشتہاری قرار دیے جانے والے افراد کے انٹرویوز، تقاریر اور عوامی اجتماعات سے خطاب نشر کرنے اور ریکارڈنگ چلانے سے روک دیاتھا،پیمرا کے اس حکم نامے کے تناظر میں عدالت سے مختلف مقدمات میں مفرور اور اشتہاری قرار دیے گئے سابق وزیراعظم نواز شریف کی تقاریر پر بھی ٹی وی چینلز پر آن ایئر ہونے پر پابندی لگ گئی تھی۔اسی پابندی اور اس حکم نامے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ ہائی کورٹ میں مختلف درخواست گزاروں نے درخواست دائر کی تھی۔ہیومن رائٹس کمیشن، پی ایف یو جے اور دیگر معروف صحافیوں کی جانب سے بیرسٹر سلمان اکرم راجہ کے توسط سے دائر کی گئی درخواست میں وفاق کو بذریعہ سیکریٹری اطلاعات اور پیمرا کو فریق بنایا گیا تھا۔درخواست میں پیمرا کے نواز شریف سمیت دیگر مفرور و اشتہاریوں کی تقاریر ٹی وی پر نہ دکھانے کے یکم اکتوبر کے حکم نامے کو چیلنج کیا گیا تھا۔درخواست گزاروں نے کہا تھا کہ پیمرا کی جانب سے الیکٹرانک میڈیا پر غیر آئینی و غیر قانونی قدغن لگائی گئی ہے، یہ احکامات آئین کے آرٹیکل 19 ‘اے’ سے متصادم ہیں جو شہریوں کو آزادی اظہار رائے اور معلومات کی فراہمی کا حق فراہم کرتا ہے