جو شہباز شریف کو ٹی ٹیز آئی ہیں یا   منی لانڈرنگ کی ہے وہ پیسہ آیا کہاں سے ہے، جسٹس علی باقر نجفی

 نیب پراسیکیوٹر عدالت کو مطمئن نہ کرسکے ،تین رکنی بینچ نے متفقہ طور پر شہبازشریف کی درخواست ضمانت منظور کی

لاہور  (ویب ڈیسک)

لاہور ہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ اورآمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر  اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور کر لی ۔ جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں جسٹس مس عالیہ نیلم اور جسٹس سید شہباز علی رضوی پر مشتمل تین رکنی فل بینچ نے منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس کی سماعت کی ۔ تین رکنی بینچ نے متفقہ طور پر شہبازشریف کی درخواست ضمانت منظور کرنے کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے شہباز شریف اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سنایا۔  گذشتہ روز شہباز شریف کے وکلاء سینیٹر چوہدری اعظم نذیر تارڑ اور محمد امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل مکمل کر لئے تھے جبکہ جمعرات کے روز نیب پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری نے دلائل دیئے۔ دوران سماعت (ن)لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ خان، (ن)لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب، عظمیٰ بخاری، عطاء اللہ تارڑ اور دیگر (ن)لیگی رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ جسٹس علی باقر نجفی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بینچ نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت متفقہ طور پر منظور کی ہے۔ عدالت نے قراردیا کہ شہباز شریف کو ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کیا جائے۔عدالت کے روبرو نیب پراسیکیوٹر نے شہبازشریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کی آبزرویشن پر اعتراض اٹھا دیا۔ جس پر اعظم نذیر نے کہا کہ نیب توہین عدالت کا نوٹس دلوانا چاہتی ہے، ہم باہر جا کر کلائنٹ کو کیا بتائیں کہ ضمانت ہوئی ہے کہ نہیں۔ دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے موقف پیش کیا کہ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 27 سال میں ایسا نہیں ہوا کہ فیصلہ جاری ہونے کے بعد تبدیل ہوا ہو، لیکن یہاں تین دن کے بعد ایک فیصلہ تبدیل کردیا گیا، کیا یہ عدالت کے خلاف بات نہیں ؟ ان کی یہ بات توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔اعظم نذیر تارڑ نے  جواب دیا کہ میں اب بھی اپنے الفاظ پر قائم ہوں، نیب پراسیکیوٹر نے انتہائی سخت بات کی جو انہیں واپس لینی چاہئے۔ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ میں ثابت کر سکتا ہوں کہ جملہ توہین آمیز ہے تو آپ کو اس واپس لینا چاہیے ۔عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو اس مسئلے پر مزید بحث کرنے سے روک دیا اور نیب پراسیکیوٹر کو ضمانت کیس پر دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ آپ صرف کیس پر بات کریں۔۔ دوران سماعت جسٹس علی باقر نجفی نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ بے نامی دار ثابت کرنے کے لئے کیا اجزا چاہئیں اور نیب نے کیا تحقیقات کیں۔اس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سلمان شہباز شریف نے 1996میں ٹی ٹیز وصول کیں ۔اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپ سلمان شہباز سے متعلق بتارہے ہیں ، عدالت کو شہباز شریف سے متعلق بتایاجائے، آپ نے بتانا ہے کہ سلمان شہباز اپنے والد کے زیر کفالت تھے اور اس دوران انہوں نے کتنے اثاثے بنائے۔ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نصرت شہباز شریف نے ماڈل ٹائون میں پلاٹ خریدا جو ان کے بیٹوں نے ٹیلی گراف ٹرانسفر کی رقم سے بنایا جبکہ ماڈل ٹائون گھر کو 10سال تک وزیر اعلیٰ کیمپ آفس قراردیا گیا۔ نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ ملزم شہباز شریف اپنی بیوی کے گھر 10برس تک رہتا رہا اور یہ جتنے بھی اثاثے بنائے یہ منی لانڈرنگ کرکے بنائے گئے تھے۔ اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ اس وقت تو شہباز شریف جیل میں ہیں ، اپنے گھر میں نہیں۔ججز کی جانب سے نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا گیا کہ جو شہباز شریف کو ٹی ٹیز آئی ہیں یا شہباز شریف نے جو منی لانڈرنگ کی ہے وہ پیسہ آیا کہاں سے ہے۔ اس پر نیب پراسیکیوٹر عدالت کو مطمئن نہ کرسکے جس کے بعد عدالت نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت منطور کر لی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل دو رکنی بینچ نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی تھی تاہم دونوں ججز کے درمیان اختلاف پیدا ہونے پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔