منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور،فوری رہا کرنے کا حکم

عدالت نے شہباز شریف کو 50،50لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کر انے کی ہدایت کر دی

لاہور (ویب  نیوز)لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل دو رکنی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف کی منی لانڈرنگ کیس میں درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے شہباز شریف کو 50،50لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔ دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری کا  اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ شہباز شریف ایک نیٹ ورک کے زریعہ منی لانڈرنگ کرتے تھے، شہباز شریف کے 1990میں اثاثے ایک کروڑ 65لاکھ  روپے تھے جبکہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کے 2018میں اثاثے سات ارب روپے سے زائد ہو گئے گئے ہیں۔شہباز شریف نے آمدن سے زائد اثاثے بنائے ہیں اور منی لانڈرنگ کی ہے۔ شہباز شریف اپنے ملازمین کے ذریعے منی لانڈرنگ کا نیٹ ورک چلاتے تھے۔ سید فیصل رضا بخاری نے کہا کہ منی لانڈرنگ کیس میں میاں محمد شہباز شریف مرکزی ملزم ہیں، شریک ملزمان کی ضمانت ہو گئی تاہم شہبازشریف مرکزی ملزم ہیں اس لئے عدالت شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست خارج کرے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا   کہ سلمان شہباز شریف نے 2003میں اپنے19لاکھ روپے کے شیئرز ڈیکلیئر کئے اور جو بھی اثاثے بنے وہ 2005کے بعد بنے، جب ٹی ٹیز آنا شروع ہوئیں تو پاپڑ والے کے اکائونٹ میں 14لاکھ ڈالرز بھیجے گئے، اسی طرح محبوب علی کے اکائونٹ میں10لاکھ ڈالرز آئے جس کاا بھی پاسپورٹ بھی نہیں بنا۔ جبکہ شہباز شریف کی صاحبزادی رابعہ عمران کے اکائونٹ میں 10ٹی ٹیز بھیجی گئیں، جبکہ شہباز شریف کے شریک ملزم طاہر نقوی اشتہاری ہیں اور ان کے اکائونٹ میں لاکھوں  کی ٹی ٹیز آئی ہیں جبکہ طاہر نقوی ٹی ٹیز کی ساری رقم سلمان شہباز کو دیتا تھا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شہباز شریف کے پورے خاندان نے ٹی ٹیز وصول کیں ، وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے ملازمین کے اکائونٹ میں پیسے آتے رہے جنہیں ہارون یوسف آپریٹ کررہا تھا۔ نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ سب کا تعلق کہیں نہ کہیں شہباز شریف سے جاکر ملتا ہے۔ نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ نصرت شہباز کے 29کروڑ روپے کے اثاثہ جات ہیں اور ان کے اکائونٹ میں 26ٹی ٹیز آئیں اور ان ٹی ٹیز کی کل مالیت 137ملین ہے جبکہ 96ایچ گھر اور 87ایچ گھر بھی ٹی ٹیز کی رقم سے خریدا گیا ۔ نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ شہباز شریف کے خلاف واضح ثبوت موجود ہیں لہذا شہباز شریف کی درخواست ضمانت خارج کی جائے۔ نیب پراسیکیوٹر نے تقریباً دو گھنٹے 15منٹ تک اپنے دلائل دیئے اور شہبازشریف کی درخواست ضمانت کی بھر پور مخالفت کی ۔ عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جو کچھ دیر بعدسناتے ہوئے شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور کر لی۔ واضح رہے کہ گذشتہ روز شہباز شریف کے وکیل سینیٹر چوہدری اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ نیب نے بدنیتی کی بنیاد پر شہباز شریف کے خلاف کیس بنایا ہے اس سے قبل آشیانہ اور ر مضان شوگر ملز کیس میں بھی  شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن ان کیسز میں لاہور ہائی کورٹ نے انہیں ضمانت دے دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب کی جانب سے اب ایک اور کیس آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کا بنایا گیا ہے۔ نیب کی جانب سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کئے گئے اور منی لانڈرنگ کے جو الزامات شہباز شریف پر لگے ان کا تمام ریکارڈ نیب کے حوالے کردیا گیا تھا اور اہم بات یہ ہے کہ اس وقت احتساب عدا لت کے ججز موجود نہیں ہیں، ان کے تبادلے ہو چکے ہیں اور نئے ججز کی تقرریا ں نہیں ہوئیں۔ اس مقدمہ میں نیب نے 110گواہان کو نامزد کیا ہے جن میں اب تک صرف10گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوسکے ہیں اسی لئے کیس کا ٹرائل فوری طور پر مکمل ہونا ممکن نہیں اور نیب کی اپنی رپورٹ کے مطابق یہ ٹرائل کم از کم ایک سال کے عرصہ میں مکمل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ، شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور کی جائے اور انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔ ZS