وزارت صحت کے مختلف اداروں میں ایک ایک  افسر کے پاس پانچ پانچ آسامیوں کے چارج

سینیٹ قائمہ کمیٹی  نیشنل ہیلتھ کے اجلاس کی کاروائی کے دوران انکشاف

گریڈ 18کے بندے گریڈ 20میں کام کر رہے ہیں  بہت سی آسامیوں پر غیر متعلقہ افراد کی تقرری

ڈی جی ہیلتھ گزشتہ چھ برس سے ڈیپوٹیشن سے پنجاب سے آیا ہے اور پانچ سال سے زائد ڈیپوٹیشن پر کام کرنا قانون میں نہیں ہے

ای ڈی پمز جو ڈنیٹسٹ ہیں ان کے پاس تین چارج ہیں رولز کے مطابق ڈینٹسٹ ٹیچنگ  ہسپتال کا ہیڈ نہیں بن سکتا

 پولی کلینک میں ایک  ڈاکٹر گائنی کی ہیڈ ہے اس پر بھی ایڈمن کیڈر کا بندہ ہیڈ ہو سکتا ہے۔

نیرم(NIRM) میں جعلی ڈگری والی ڈاکٹر اضافی چارج پر کام کر رہی ہے، سینیٹر شفیق ترین

آسلام آباد (ویب ڈیسک ) ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز کے اجلاس کی کاروائی کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ  وزارت صحت کے مختلف اداروں میں ایک ایک  افسر کو پانچ پانچ آسامیوں کے چارج دیئے گئے ہیں۔ گریڈ 18کے بندے گریڈ 20میں کام کر رہے ہیں  بہت سی آسامیوں پر غیر متعلقہ افراد پوسٹ کئے گئے ہیں۔ ڈی جی ہیلتھ گزشتہ چھ برس سے ڈیپوٹیشن سے پنجاب سے آیا ہے اور پانچ سال سے زائد ڈیپوٹیشن پر کام کرنا قانون میں نہیں ہے۔ای ڈی پمز جو ڈنیٹسٹ ہیں ان کے پاس تین چارج ہیں رولز کے مطابق ڈینٹسٹ ٹیچنگ  ہسپتال کا ہیڈ نہیں بن سکتا یہ پوسٹ ایڈمن کیڈر کی ہے پولی کلینک میں ایک  ڈاکٹر گائنی کی ہیڈ ہے اس پر بھی ایڈمن کیڈر کا بندہ ہیڈ ہو سکتا ہے۔ نیرم(NIRM) میں جعلی ڈگری والی ڈاکٹر اضافی چارج پر کام کر رہی ہے ورنہ پی ایم ڈی سی کی رجسٹریشن دیکھائی جائے  اجلاس چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر خوش بخت شجاعت کی زیر صدرات پارلیمنٹ ہاؤس میں  ہوا۔ سینیٹر شفیق ترین نے کہا کہ  وزارت صحت میں ورٹیکل پروگرامز کی تفصیلات لی جائیں ۔ ڈاکٹر رانا صفدر جو سول سرونٹ نہیں ہیں این آئی ایچ کا ملازم ہے اس کو پولیو، نیشنل کواڈینٹر ملیریا، ایڈز، ٹی بی اور دیگرا چارجز بھی دیئے گئے ہیں اور این آئی ایچ کے ڈاکٹر عامر کے پاس ای ڈی کا اضافی چارج ہے وہ ڈیپوٹیشن پر آئے تھے۔ ڈیپوٹیشن ختم ہو گیا ہے وہ اب بھی اس پوسٹ پر ہیں اور ہیلتھ ریسرچ کا اضافی چارج بھی ان کے پاس ہے اور ڈریپ کے سی ای او اور ڈائریکٹرز کی تفصیلا ت بھی کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔ چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ معاون خصوصی برائے صحت کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کرائیں۔ اجلاس میں ورکنگ پیپر کی تاخیر سے فراہمی اور سیکرٹری وزارت صحت کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا۔سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ پمز ہسپتال کے ڈاکٹروں کی پرموشن کے معاملات کافی عرصے سے زیر التوا ہیں۔ پارلیمنٹ سمیت سپریم کورٹ نے بھی اس حوالے سے احکامات جاری کئے ہیں مگر وزارت صحت اس پر عملدرآمد نہیں کر رہا ۔کچھ ڈاکٹروں کو شو کاز نوٹس بھی جاری کئے گئے جو کسی زیادتی سے کم نہیں ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت صحت نے بتایا کہ شوکاز نوٹس واپس لے لئے گئے ہیں اور کمیٹی کو فراہم کر دیئے جائیں گے۔سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ پمز میں ایسے لوگ بھی کام کر رہے ہیں جن کا تعلق متعلقہ فیلڈ سے نہیں ہے۔ من پسند افراد کو نوازہ گیا ہے۔ اراکین کمیٹی نے کہا کہ وزارت صحت کی 2008کی پالیسی ہے اس کے مطابق وزارت کام کیوں نہیں کرتی ۔سینیٹر سردار محمد شفیق ترین نے کہا کہ عدالت نے اس مسئلے کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی تھی جس میں تمام چیزیں طے ہو چکی ہیں صرف عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ایڈیشنل سیکرٹری وزارت صحت نے کمیٹی کو بتایا کہ  پمز ہسپتا ل میں ایسے ڈاکٹر بھی ہیں جنہوں نے 2006میں جوائن کیا اور دو دو اسپیشلائزیشن بھی کر چکے ہیں مگر اب بھی گریڈ 17میں کام کر رہے ہیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ عدالت کی بنائی ہو کمیٹی کی رپورٹ کی انٹر پٹیشن ہو رہی ہے اس رپورٹ کا جائزہ لے کر آگے بڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ  مسئلہ چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کا بھی ہے۔ لوگ محنت کرتے ہیں اور ان کو ان کا جائز حق ملنا چاہئے ۔عدالت کے حکم کے مطابق مسئلے کو حل کر کے دو ہفتے کے اندر رپورٹ دی جائے۔ سینیٹر مشتا ق احمد نے کہا کہ تفتان میں جو قرنطینہ سینٹر قائم کیا گیا تھا اس میں انتظامات انتہائی ناقص تھے۔ سینکڑوں لوگوں کیلئے ایک باتھ روم تھا اس حوالے سے لوگوں نے ویڈیو دیکھائی جس کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ حکومت کے پاس کافی وقت تھا وہ بہتر انتظامات کر سکتی تھی۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا کہ قرنطینہ سینٹر  میں تفتان زائرین کا ٹیسٹ لے کر جانے کی اجازت دے دی گئی ۔ اچانک اتنے لوگ آئے تھے وہاں سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے اور آئندہ کیلئے بہتر حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ ایران بارڈر پر ہزاورں زائرین کو کھڑا کر دیا گیا تھا اور صوبائی حکومت کے پاس اتنی استعداد نہیں تھی کہ اتنے بڑے پیمانے پر موثر انتظامات کرتی۔ سینیٹر شفیق ترین نے  انکشاف کیا کہ  وزارت صحت کے مختلف اداروں میں ایک ایک بندے کو پانچ پانچ آسامیوں کے چارج دیئے گئے ہیں۔ گریڈ 18کے بندے گریڈ 20میں کام کر رہے ہیں اور بہت سی آسامیوں پر غیر متعلقہ افراد پوسٹ کئے گئے ہیں۔ ڈی جی ہیلتھ گزشتہ چھ برس سے ڈیپوٹیشن سے پنجاب سے آیا ہے اور پانچ سال سے زائد ڈیپوٹیشن پر کام کرنا قانون میں نہیں ہے۔ای ڈی پمز جو ڈنیٹسٹ ہیں ان کے پاس تین چارج ہیں رولز کے مطابق ڈینٹسٹ ٹیچنگ  ہسپتال کا ہیڈ نہیں بن سکتا یہ پوسٹ ایڈمن کیڈر کی ہے پولی کلینک میں ایک  ڈاکٹر گائنی کی ہیڈ ہے اس پر بھی ایڈمن کیڈر کا بندہ ہیڈ ہو سکتا ہے۔ نیرم(NIRM) میں جعلی ڈگری والی ڈاکٹر اضافی چارج پر کام کر رہی ہے پی ایم ڈی سی کی رجسٹریشن دیکھائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت صحت میں ورٹیکل پروگرامز کی تفصیلات دیں اور ڈاکٹر رانا صفدر جو سول سرونٹ نہیں ہیں این آئی ایچ کا ملازم ہے اس کو پولیو، نیشنل کواڈینٹر ملیریا، ایڈز، ٹی بی اور دیگرا چارجز بھی دیئے گئے ہیں اور این آئی ایچ کے ڈاکٹر عامر کے پاس ای ڈی کا اضافی چارج ہے وہ ڈیپوٹیشن پر آئے تھے۔ ڈیپوٹیشن ختم ہو گیا ہے وہ اب بھی اس پوسٹ پر ہیں اور ہیلتھ ریسرچ کا اضافی چارج بھی ان کے پاس ہے اور ڈریپ کے سی ای او اور ڈائریکٹرز کی تفصیلا ت بھی کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔