اسلام آباد….. عوامی تحریک کے تین کارکنان کی ہلاکت کے خلاف وزیر اعظم ، وزیر اعلی پنجاب، وفاقی وزیر داخلہ ، وزیر دفاع وزیر ریلویز،آئی جیز اسلام آباد، پنجاب ، ریلویز، چیف کمشنر و ڈی سی اسلام آباد، ایس ایس پی اسلام آباد اور ایس ایچ او تھانہ سیکرٹریٹ کے خلاف دہشتگردی ، قتل اور اقدام قتل کی دفعات کے تحت تھانہ سیکرٹریٹ پولیس نے مقدمہ درج کر لیا۔منگل اور بدھ کی آخری کی شب یہ مقدمہ آئی جی اسلام آباد کی زیر صدارت ہونے والی اعلی سطحی اجلاس میں مشاورت کے بعد درج کیا گیا جس کے بعد سیکرٹریٹ پولیس نے عوامی تحریک کی درخواست کی درخواست پر مقدمہ نمبر 206/14زیر دفعہ 7ATA,302,324.427.109کے تحت یہ مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان،وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف، وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق، سابق قائم مقام آئی جی اسلام آبادخالد خٹک،آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا،آئی جی ریلویز،چیف کمشنر اسلام آباد،ڈپٹی کمشنر اسلام آباد مجاہد شیر دل،سابق ایس ایس پی آپریشنز محمد علی نیکو کارا اور ایس ایچ او تھانہ سیکرٹریٹ پولیس کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔پولیس ذرائع کے مطابق مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ وفاقی پولیس نے ایک مشاورتی اجلاس کے بعد کیا اور اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دھرنے کی سکیورٹی پر مامور تمام اہلکاروں کے کے پا س کوئی اسلحہ نہیں تھا، ان کے پاس صرف آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں تھیں اور اس کے باوجود اگر کوئی آئرن بلٹ لگنے سے ہلاک ہوا ہے تویہ امر قابل تحقیق و قابل غور ہے کہ اس بات کی کھوج لگائی جائے کہ یہ اسلحہ کس کے پاس تھا کیا اس میں واقعی کوئی پولیس اہلکار ملوث تھا یا دھرنے میں شامل افراد تو کہیں اس سازش میں ملوث نہیں تھے۔پولیس ذرائع کے مطابق پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے بات لٹکانے سے اتفاق نہیں کیا بلکہ اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تفتیش کو آگے بڑھایا جائے گا اور جلد از جلد اصل حقائق کو منظر عام پر لایا جائے گا۔پولیس ذرائع کے مطابق آئی جی اسلام آباد اس مقدمہ میں تحقیقات کے لئے ایک تحقیقاتی ٹیم بنائیں گے جس کے لئے ماہر تحقیقاتی افسران کی خدمات حاصل کی جائیں گی انہیں تمام جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات فراہم کی جائیں گی تاکہ اصل حقا ئق تک جلد از جلد پہنچا جاسکے۔پولیس ذرائع کے مطابق اجلاس میں بعض پولیس افسران کی طرف سے آئی جی اسلام آباد طاہر عالم خان کو یہ بھی تجویز دی گئی کہ شیشن عدالت کے تفصیلی کا فیصلہ جاری ہو چکا ہے جسے اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے تاہم آئی جی اسلام آباد نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔فواضح رہے کہ عوامی تحریک کی درخواست پر شیشن جج اسلام آباد ویسٹ راجہ جواد عباس حسن نے تھانہ سیکرٹریٹ پولیس کو 30اگست کو مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ سے عوامی تحریک کے دو کارکنان کی ہلاکت وزیر اعظم سمیت گیارہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔تفصیلی عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ قانون کے مطابق واقعہ کا مقدمہ درج کیا جائے اور اس پر مزید کاروائی بھی طریقہ کار کے مطابق عمل میں لائی جائے،کیونکہ درخواست گزار کی طرف سے لگائے گئے الزامات بادی النظر میں قابل دست اندازی جرم سے متعلق پائے گئے ہیں مگر ایس ایچ او تھانہ سیکرٹریٹ پولیس نے قانون کے مطابق ضابطہ فوجداری کے تحت قانونی ذمہ داری پوری نہیں کی لہذا ایس ایچ او کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ قانون کے مطابق مقدمہ درج کر کے طریقہ کاروائی کے مطابق کاروائی کریں۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ مدعا علیہ نے عوامی تحریک کے کارکنوں کی ہلاکت سے بھی انکارنہیں کیاگیابلکہ ان کی ہلاکت کو تسلیم کیا گیا ہے۔یاد رہے عوامی تحریک کی جانب سے دی گی درخواست میں کہا گیا تھا کہ نامزد ملزمان کی ایماء پر ان کے کارکنان کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیاجبکہ کارکنوں پر بد ترین تشدد سے بھی متعدد کارکنان زخمی ہوئے مگر پولیس مذکورہ با اثر شخصیات و حکام کے دباؤ کے باعث درخواست کے باوجود مقدمہ درج کرنے سے انکاری ہے، درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مذکورہ واقعہ میں عوامی تحریک کے تین کارکنان جاں بحق جبکہ متعددزخمی ہوئے ،آئین پاکستان پرامن احتجاج کا ہر حق ہر شہری کا فراہم کرتا ہے یہ کوئی غیر جمہوری یا غیر قانونی اقدم نہیں مگر نامزد افراد نے قانون کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے دھرنے کے شرکاء جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ان پر بد ترین تشدد کیا ، لاٹھی چارج اور آنس گیس کی شیلنگ کی اور فائرنگ بھی کی جو کارکنوں کی ہلاکت کا باعث بنی۔