لندن‘ واشنگٹن‘ دبئی‘ اسلام آباد … دنیا بھر سے مختلف ماہرین اقتصادیات‘ سیاسیات اور سفارتی سنجیدہ حلقوں، تجزیہ کاروں اور ناقدین نے چینی صدر زی جن پنگ کے دورہ پاکستان کی منسوخی کو پاکستان کے لئے اچھا اقدام نہ گردانتے ہوئے ملک کیلئے ناقابل تلافی نقصان قراردیا ہے اور کہاہے کہ اور دھرنوں کی وجہ سے پیدا کردہ سیاسی صورتحال ہی اس کی ذمہ دار ہے ، ایک طرف پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ چین جیسا ملک اس وقت مثالی‘ قریبی اور سدابہار دوست ہے تو دوسری طرف مصنوعی طور پر پیدا کردہ سیاسی صورتحال نے ان کا انتہائی اہم دورہ پاکستان منسوخ کرادیا ہے۔چینی صدر کے دورہ پاکستان کی منسوخی اور اس کے باعث پاکستان کے 34ارب ڈالر کے معاہدوں سے محروم رہنے کی صورتحال پر عالمی ذرائع ابلاغ نے ، سیاسی ، سفارتی ،خارجہ اور اقتصادی ماہرین اور سنجیدہ حلقوں کے حوالے سے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ زی جن پنگ کے دورہ پاکستان کی منسوخی پاکستان کے لئے اچھا اقدام نہیں بلکہ یہ ناقابل تلافی نقصان ہے اور دھرنوں کی وجہ سے پیدا کردہ سیاسی صورتحال ہی اس کی ذمہ دار ہے ، ایک طرف پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ چین جیسا ملک اس وقت مثالی‘ قریبی اور سدابہار دوست ہے تو دوسری طرف پیدا کردہ سیاسی صورتحال نے ان کا انتہائی اہم دورہ پاکستان منسوخ کرادیا ہے۔ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق چینی صدر نے پاکستان کا دورہ اس آخری لمحے میں منسوخ کیا جب انہوں نے پاکستان میں 45.6 ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کرنا تھے۔ ان معاہدوں کے تحت ابتدائی طور پر 34 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہونا تھی اور یہ دورہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کے باعث پیدا شدہ صورتحال کے باعث منسوخ ہوا۔ اس دورے کو اب ری شیڈول کیا جائے گا۔ اس دورہ کی منسوخی نے پاکستان کو ہر لحاظ سے شدید دھچکا پہنچایا ہے یہ پاکستان کے عوام کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ سی ڈی ڈبلیو پی نے پاک چین اقتصادی راہداری سپورٹ پراجیکٹ کی منظوری دی تھی۔ تجزیہکار اور ماہرین کے مطابق چینی صدر کا یہ دورہ دونوں دوست ممالک کے درمیان اہم سنگ میل قرار دیا جارہا تھا اور اس چینی سرمایہ کاری پروگرام سے پاکستانی معیشت پر زبردست اثرات مرتب ہوتے ، نئی مالی امداد سے ملکی معیشت کو نئی جلا ملتی ۔ اس دوران دو جماعتوں کے مظاہرین کی جانب سے دھرنے کے نتیجے میں پیدا شدہ صورتحال چینی صدر کے دورہ کی منسوخی کی سب سے بڑی وجہ بنی ۔ دھرنوں کے نتیجے میں پاکستان کو بھاری سفارتی سیاسی اور اقتصادی نقصان پہنچا اور چین کی جانب سے 34 ارب ڈالر کی بڑی سرمایہ کاری بھی رک گئی ۔ چین پاکستان میں توانائی ، مواصلات ، ریلویز اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری کا خواہاں ہے تاہم پاکستان میں دھرنوں کے باعث پیدا شدہ صورتحال کا بھارت نے فائدہ اٹھایا اور ایک بڑا اقتصادی ملک بننے کے لئے چین سے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی کوششیں کررہا ہے ۔ دو رہنماؤں کے اسلام آباد میں مظاہرے سے پاکستان کی سیاسی اور اقتصادی ڈپلومیسی شدید کمزور ہوئی ہے ۔زی ین پنگ نے اپنا بھارت کا دورہ شروع کردیا ہے جسے خطے میں اہم اقتصادی اور سیاسی پیش رفت کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے ۔ چینی صدر اس وقت پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت کا دورہ کررہے ہیں جب بھارتی وزیراعظم جاپان کا دورہ کرکے آئے اور اس دوران جاپان نے آئندہ 5 سالوں میں بلٹ ٹرین سمیت مختلف ترقیاتی منصوبوں میں 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ۔ چینی صدر کے دورہ بھارت کے موقع پر اس بات کا امکان ہے کہ چین بھارت کے شہر پونا ، گجرات اور احمد آباد دو صنعتی پارکوں کے قیام سمیت دیگر شعبوں میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا ۔ پونا پارک پر 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی جبکہ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے خلاء کو پر کرنے کیلئے گجرات اور مہاراشٹرا میں صنعتی پارکوں کی تعمیر کیلئے 7 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی جائے گی جبکہ انفراسٹرکچر ، مینوفیکچرنگ اور ریلوے کے منصوبوں میں بھی چین اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا اس سلسلے میں معاہدے طے پائے ہیں ۔ چین نے مالدیپ میں مالدیپ ایئرپورٹ ، ہاؤسنگ اور دیگر منصوبوں کی اپ گریڈیشن سمیت دیگر منصوبوں کیلئے معاہدوں پر دستخط کیے ۔ چینی صدر نے 21 ویں صدی ،میری ٹائم ، سلک روٹ کے حوالے سے مالدیپ کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے جبکہ سری لنکا میں چینی صدر نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ کے آخری فیز کا بھی افتتاح کیا اور انہوں نے کولمبو پورٹ سٹی پراجیکٹ آگے بڑھانے کیلئے سری لنکا کے ساتھ تعاون پر اتفاق کیا جبکہ 1.3 ارب ڈالر کی لاگت سے کولمبو میں مصنوعی جزیرہ بھی بنایا جائے گا ۔ اقتصادی سفارتی حلقوں اور ماہرین نے کہا کہ مظاہرے کرنے والی دو جماعتوں نے مختلف شعبوں میں پاک چین میگا پراجیکٹس اور تعاون کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی ہے، دوسری جانب بھارت مزید تعاون کو فروغ دینے کے لئے چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں کے باعث پاکستان چین کی میگا سر مایہ کاری کا موقع کھو بیٹھا جبکہ بھارت نے چینی سر مایہ کاری پر قبضہ کر لیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے بار باراس تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ دورے کی منسوخی سے ملک میں صنعتی اور گھریلو توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد دینے کے لئے شروع کیا جانے والا ایک ہزار میگا واٹ کا بجلی کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا، بجلی کے منصوبے میں تاخیر نے حکومت کے ملک میں 2017-18ء تک مکمل بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے منصوبے میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ بیجنگ میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال، وائس چیئرمین نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز آف چائنا ہوزوکائے کی متروکہ صدارت میں صدر زی جن پنگ کے دورہ سے قبل باضابطہ طور پر ٹرانسپورٹ اور توانائی کے کئی مختصر المدت منصوبے شروع کرنے پر اتفاق کر لیا گیا تھا۔ چین کی مدد سے شروع کئے جانے والے دیگر چار مجوزہ منصوبوں میں انفراسٹرکچر سکیمیں شامل تھیں جن میں قراقرم ہائی وے فیز ٹو، گوادر پورٹ کی تعمیر و ترقی اور لاہور کراچی موٹر وے کے منصوبے شامل ہیں۔ چین نے پہلے ہی ایگزم سمیت دیگر 3بینک نامزد کر دیئے تھے جنہوں نے مجوزہ طور پر چینی کمپنیوں کو پاکستان میں بجلی،ریلوے اورٹرانسپورٹ کے شعبوں میں سر مایہ کاری کیلئے قرضے دینے تھے۔ چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات نے ہر مشکل گھڑی اور عالمی سیاست میں ریاست سے ریاست کے درمیان اچھی مثال قائم کی۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان جنوری سے 2014ء تک دوطرفہ تجارت کا حجم 73ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا، اسے تسلسل جاری رکھنے کی ضرورت تھی۔ بہرحال ملک میں جاری سیاسی بحران کے باعث چینی صدر کے دورہ کی منسوخی سے ملک میں پہلے سے پائپ لائن میں رہنے والے کئی اقتصادی منصوبے رک گئے۔ ماہرین کے مطابق سفارتی اور اقتصادی سرگرمیوں کو تسلسل کے ساتھ چلانے کے لئے اعلیٰ سطحی دوروں کا تبادلہ جاری رہنا چاہیے۔ پاکستان اور چین کے حوالے سے یہ انتہائی اہم ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے 2013ء میں عہدہ سنبھالنے کے بعد چین کو اپنے پہلے دورے کے لئے منتخب کیا اور دوطرفہ تجارت اور فروغ دینے کا عزم کیا۔ اس دورے کے نتیجے میں اقتصادی راہداری لاہور،کراچی موٹروے، کاشغر ،گوادر ہائی وے کی تعمیر سمیت 18 ارب ڈالر مالیت کے منصوبوں کیلئے معاہدے ہوئے۔ان میں زیڈ ٹی ای کارپوریشن کے ساتھ شمسی توانائی، پاک چین سرحد سے راولپنڈی تک فائبر آپٹک فائبر بچھانے کے 44ملین ڈالر کے معاہدے بھی شامل ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے چینی ہم منصب لی کی چیانگ نے امن، تعاون اور خطے میں ہم آہنگی کے فروغ کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ۔ انہوں نے غربت کے خاتمے، سماجی و اقتصادی ترقی اور تنازعات ختم کرنے کیلئے عوام کو محور بنانے کی پالیسیوں کو فرغ دینے کے عزم کا بھی اعادہ کیا، سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق چینی صدر کا دورہ پاکستان ملک میں مشکلات کا سامنا کرنے والی حکومت کیلئے انتہائی اہم حمایت تھی۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والی جماعتوں کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ پاکستان چین کے ساتھ تعاون کے مواقع نہیں کھو سکتا۔ کیونکہ چین ایشیاء میں عظیم طاقت ہے اور وہ عالمی اقتصادی ترقی اور خطے میں ٹیکنالوجی کی ترقی کیلئے ایک انجن کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اس کو ثابت کر رہا ہے۔