کمپنیاں نام تبدیل کرکے غیرمعیاری منرل واٹرفروخت کرنے لگیں
سینیٹر مشتاق احمدکی زیرصدارت سینیٹ کمیٹی میں انکشاف

اسلام آباد (ویب  نیوز)

ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس وٹیکنالوجی میں  انکشاف ہوا ہے کہ  غیرمعیاری منرل واٹر کمپنی کا نام تبدیل کر کے فروخت  اوربند بوتل کے نام پر قوم کو گندہ پانی پلایا جا رہا ہے،آگاہی دی گئی ہے کہ 23 کمپنیوں کے پانی کے نمونے غیر معیاری پائے گئے۔ پانچ کمپنیوں کے یونٹس سربمہر کیے گئے، 18 کمپنیوں کے سیلنگ پوائنٹس کو بند کیا گیا،سات بڑے شہروں میں پانی کی سیمپلنگ  کی گئی  کاروائی پر کمپنیاں نام تبدیل کر کے دوبارہ کام شروع کردیتی ہیں ۔بدھ کو کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشتاق احمد کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔  مضر صحت اور ملاوٹ کرنے والی برینڈ کی فروخت کرنے والی کمپنیوں کے خلاف سفارشات پر عملدرآمد، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ماتحت اداروں کے سربراہان تقرر نہ ہونے کے معاملات کا بھی  تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کو گزشتہ چھ ماہ کے دوران پی ایس ڈی پی منصوبوں پر اخراجات کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا، کمیٹی کو بتایا گیا کہ مجموعی طور پر 32منصوبوں میں سے پچیس وزارت اور اس کے ماتحت اداروں جبکہ سات منصوبے وزیراعظم ٹاسک فورس کے تھے، ان منصوبوں کیلئے رواں مالی سال کیلئے 4458ملین روپے مختص کئے گئے تھے، جن میں سے پہلے چھ ماہ کے دوران 1087ملین روپے ریلیز ہوئے اور ان میں سے اب تک 222ملین روپے خرچ ہو سکے ہیں، دو ارب صرف وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بننے والی یونیورسٹی کیلئے مختص ہوئے ہیں، یونیورسٹی کی فزیبلٹی وغیرہ پر 390ملین روپے خرچ ہونگے۔ جس پرچیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بعض منصوبوں کو دو سال پہلے مکمل ہونا چاہئے تھا ان پر اب بھی کام جاری ہے، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت سائنس و ٹیکنالوجی  نے بتایا کہ 13منصوبے رواں مالی سال کے آخر تک مکمل ہو جائیں گے۔یونیورسٹی کی فزیبلٹی بن رہی ہے اور اس کے قیام میں چھ سال لگیں گے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ رقم پہلے مختص کر دی گئی اور منصوبے کی فزیبلٹی ابھی بنی ہی نہیں، یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے کوئی عملی کام نہیں ہوا ہے۔ 390ملین روپے صرف فزیبلٹی سٹڈی پر خرچ نہیں ہونگے۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کمیٹی کو بتایا کہ جب    کورونا وباآئی تو پاکستان میں کچھ نہیں بن رہا تھا ،وینٹی لیٹرز، ماسک،سینی ٹائزر ہر چیز درآمد کر رہے تھے، آج پاکستان کورونا آلات کی برآمدات کرر ہا ہے، ہم نے دو نئی انڈسٹریز کھڑی کر نی ہیں،  بڑی کمپنیاں آکر پاکستان میں ڈائیلائسسز مشینیں بنا رہی ہیں، الیکٹرک وہیکل پالیسی ہماری بڑی کامیابی ہے، اس سال سب سے بڑی اسکالرشپ مہم شروع کررہے ہیں،سکالرشپ منصوبے کیلئے 13 ارب روپے کا منصوبہ منظور ہوا ہے۔انہوں نے کہا جب میں نے چارج لیا تو سائنس کے اداروں کے سربراہان نہیں تھے۔ ریسرچ کا بجٹ 16 ارب روپے تک لے گئے ہیں، اداروں کو مضبوط کر رہے ہیں، اداروں کے بورڈز مکمل کروائے ہیں، چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ پچھلے 33ماہ میں یہ 48واں اجلاس ہے۔227سفارشات وزارت کو دی ہیں جو وزارت کے ماتحت اداروں سے متعلق تھیں، اداروں کا کام سست روی کا شکار ہے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ پندرہ سالوں کے بعد ہم نے اداروں کے رولز بنائے ہیں،ہم نے پہلی بار سول ملٹری انٹرفیز تیار کیا ہے،پرائیویٹ سیکٹر کے بغیر ہم پراجیکٹس کو آگے نہیں چلاسکتے۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ لوگوں نے زمینوں پر قبضے کر رکھے ہیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ صرف چار ادارے رہ گئے ہیں جن کے سربراہ ابھی لگنے باقی ہیں تاہم زیادہ تر اداروں کے سربراہان لگا دیئے گئے ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ادارے سیلری پیئنگ سنٹرز بن گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ بند بوتل کے نام پر قوم کو گندہ پانی پلایا جا رہا ہے۔پی ایس کیو سی اے حکام نے بتایا کہ 23 کمپنیوں کے پانی کے نمونے غیر معیاری پائے گئے۔ پانچ کمپنیوں کے یونٹس سربمہر کیے گئے، 18 کمپنیوں کے سیلنگ پوائنٹس کو بند کیا گیا، پی ایس کیو سی اے اور پی سی آر ڈبلیو آر مل کر پانی کی موبائل سیمپلنگ کرتے ہیں مگر اس دفعہ مشترکہ طور پر سمپلنگ نہیں کی گئی۔سات بڑے شہروں میں پانی کی سیمپلنگ کی گئی۔ ایکشن لینے کے بعد کمپنیاں نام تبدیل کر کے دوبارہ کام شروع کردیتی ہیں۔ایڈیشنل سیکرٹری نے بتایا کہ اس چیز کو آٹ سورس کرنے جا رہے ہیں۔ پی ایس کیو سی اے جرمانہ بھی نہیں کرسکتا، ڈی جی پی ایس کیو سی اے نے کہا کہ ایکٹ میں ترمیم کیلئے لکھ کر بھیج دیا ہے کہ ادارے کو موقع پر جرمانے کا بھی اختیار دیا جائے جو پچاس ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے ہونا چاہئے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاپا نی کے اسٹنڈرڈ چیکنگ نہیں کرسکتے تو باقی 61 چیزوں کا کیا کریں گے،چیئرمین کمیٹی نے پی ایس کیو سی اے حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ایس کیو سی اے میں کرپشن کیسز کی انکوائری التوا کا شکار ہے، ہماری ہدایات کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا۔ پچھلے تین سال سے یہ معاملہ کمیٹی کے ایجنڈے پر ہے، جن افسران پر کرپشن کے کیسز ہیں ان کو معطل کیا جائے مگر کسی کو معطل نہیں کیا گیا، پی ایس کیو سی اے حکام نے بتایا کہ تین افسران کو معطل کیا جاچکا ہے۔ سنیٹر نعمان وزیر نے بتایا کہ سینٹ کا یہ عالم ہے ہم زوم میٹنگ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ گرمیوں میں بجلی کی ڈیمانڈ 23000میگاواٹ ہے جو سردیوں میں کم ہو کر صرف چھ ہزار پر آجاتی ہے۔ہمارے ایئر کنڈیشنرز سردیوں میں آٹھ ہزار میگاواٹ بجلی کھا جاتے ہیں جبکہ ہمارے پنکھے نو ہزار میگاواٹ بجلی کھا جاتے ہیں۔ پاکستان پنکھے 80سے 100والٹ لیتے ہیں جبکہ عالمی سطح کے بنے پنکھے صرف 20سے 30والٹ لیتے ہیں۔ ہم ایئرکنڈیشنر اور انوینٹر پنکھے استعمال کر کے چھ ہزار میگاواٹ بجلی گرمیوں میں بچا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ڈی سی پنکھوں کو انونٹر کرنا ہے۔ انہوں نے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی سے کہا کہ اس حوالے سے پی سی ون تیار کرے۔