اسلام آباد (صباح نیوز)

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے لاک ڈاؤ ن کو ختم کرنے کے لیے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بڑھانے کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بندشیں ختم کرنے کے حوالے سے فیصلہ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں منگل کو  ہوگا۔ نیشنل کمانڈ سسٹم کا ایک اجلاس ہوگا جس میں تجاویز پر غور ہوگا’۔ اجلاس دوپہر کو وزیراعظم کی صدارت میں این سی سی کا اجلاس ہوگا جس میں فیصلے کیے جائیں گے کہ 15 تاریخ سے آگے کیا کرنا ہے’۔میڈیا بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ  اجلاس میں معیشت سے جڑے معاملات، آمد و رفت کے ذرائع اور صحت سے جڑے معاملات پر غور کیا جارہا ہے اور ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے مربوط انداز میں فیصلے کیے جائیں گے’۔ این ڈی ایم اے کے چیئرمین نے اجلاس کو بتایا کہ ٹیسٹ کٹس اور کورونا کے علاج اور دفاع کے لیے ضروری اشیا کی فراہمی کے حوالے سے آگاہ کیا جس پر صوبوں نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا’۔میڈیا بریفنگ میں  اسد عمر کا کہنا تھا کہ ‘کورونا کے دفاع میں ذمہ داری صرف حکومت کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ہے، پابندیوں پر 100 فیصد عمل در آمد نہیں کیا گیا لیکن بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم نے ذمہ داری کامظاہرہ کیا’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اسی وجہ سے ہمارے ہاں نتائج بھی آئے ہیں جس دنیا میں خصوصی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں کورونا جس تیزی سے پھیلا اور اموات ہوئی ہیں اللہ کے فضل سے ہم اس خراب صورت حال کے اندر نہیں آئے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘اس کی ایک وجہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اقدامات بھی ہیں اور پاکستانی قوم کی جانب ذمہ داری کا مظاہرہ بھی ہے’۔اسد عمر کا کہنا تھا کہ ‘کاروباری افراد کہہ رہے ہیں جو حفاظتی اقدامات کرنے ہیں ہمیں بتائیں تاکہ ہم اپنا کاروبار چلائیں اور عمومی طور پر ہم اس سے اتفاق بھی کرتے ہیں کھولیں تاہم کل اس حوالے سے صوبوں سے مشاورت سے فیصلے کیے جائیں گے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اس کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے والے مالکان پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ آپ کاروبار کرنا چاہتے ہیں جو آپ کا حق ہے لیکن ذمہ داری کے ساتھ کرنا ہے، کیونکہ جو لوگ کام کرنے آتے ہیں ان کو اجرت کے ساتھ صحت کا خیال رکھنا بھی آپ کی ذمہ داری بن جاتی ہے’۔کاروبار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ہماری استدعا بھی ہے اور غور بھی ہورہا ہے کہ اس حوالے سے کوئی قانون بنانے کی ضرورت پڑی تو قانون بھی بنایا جائے تاکہ جو کاروبار چلا رہے ہیں ان کی ذمہ داری ہوگی کہ کام طریقہ کار میں صحت کے حوالے سے تدابیر بتائی جائیں گی اور حکومت جو لائحہ عمل دے گی اس کو وہ اپنائیں گے تاکہ جو لوگ وہاں کام کرنے آئیں گے ان کی صحت کی حفاظت کی جاسکے اور ایسا نہ ہو کہ کاروبار تو چلیں لیکن ان مزدوروں اور ملازمین کی صحت کے لیے خطرہ پیدا ہو’۔انہوں نے کہا کہ بیرون ملک پاکستان کے فیصلوں کی پذیرائی ہورہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہیں غلطی نہیں ہوئی ہو، مجھ سے بھی کوتاہی ہوئی ہوگی لیکن اس سے اچھی خلوص کے ساتھ کام کرنے والی ٹیم نہیں ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘وبا پھیل رہی ہے لیکن آپ سب کچھ بند کرکے وبا کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کریں گے تو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے خاص جن ممالک میں غربت ہے اور تھوڑے عرصے کے لیے آمدنی کی کمی سے لوگوں کے مشکلات ہوں تو وہاں پر یہ نہیں چلایا جاسکتا ہے’۔اسد عمر نے کہا کہ یہ بندشیں اس لیے ہیں کہ ایک آدمی سے دوسرے آدمی پھیلتا ہے لیکن ملک سارے لوگوں کو ایک کمرے میں بند کردیں تو دو ہفتوں میں وبا ختم ہوگی لیکن ظاہر یہ ممکن نہیں ہے اس لیے کوشش کی گئی ہے رابطے کم ہوں اور کھیلوں کے میدان اور شاپنگ مالزکو بند رکھا جائے’۔انہوں نے کہا کہ ‘جن لوگوں میں وائر ہے اور ہم ان سے کہیں کہ ایسی جگہ بیٹھ جائیں جہاں زندگی کی ضروریات پوری ہوں وہاں بیٹھ جائیں تو مجموعی طور پر لاک ڈان اور بندشیں لگا کر جو کررہے ہیں وہی کم نقصان کے ساتھ کرسکتے ہیں جس کے لیے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بڑھانا ہوگا اور اس پر زور دے رہے ہیں’۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ٹریکنگ پر بھی اچھا کام ہورہا ہے اس حوالے سے آگاہ کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پائلٹ پروجیکٹ کی بات کی تھی وہ تمام صوبوں میں شروع کردیا گیا ہے جس کے نتائج اگلے 2 کے اندر آئیں گے اور قرنطینہ کے حوالے سے بھی کام کررہے ہیں۔اس موقع پر ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک بھر میں 27 لیبارٹریاں ٹیسٹ کررہی ہیں اور اس میں مزید 7 لیبارٹریوں کا اضافہ کیا جارہا جس کے بعد یہ تعداد 34 ہوجائے گی۔ ہم نے ٹیسٹ چند سو سے شروع کیے تھے اور آج روزانہ 3 ہزار سے زائد کر چکے ہیں اور اس حکمت عملی کو آگے بڑھاتے ہوئے مہینے کے آخر تک 20 ہزار سے 25 ٹیسٹ کرنے کا ہدف بنایا ہے’۔ٹیسٹ کٹس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘چیئرمین این ڈی ایم اے   بتایا کہ اس وقت ملک میں 6 لاکھ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جو 15 اپریل تک ایک ملین سے بڑھ جائے گی اور آنے والے دنوں میں ٹیسٹ کی کمی نہیں ہوگی’۔