مظفرآباد
آج ریاست جموں وکشمیر میں لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کی جانب سے کشمیر کی تاریخ کا ناقابل فراموش دن ’یوم شہدائے کشمیر‘ منایا جارہا ہے ۔ گزشتہ سال بھارت کے پانچ اگست کے غیرقانونی اقدام کے بعد مقبوضہ وادی میں کرفیو اور لاک ڈاﺅن ہے لیکن عزم اور جذبہ وہی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کی تکمیل تک جدوجہد جاری رکھی جائیگی۔یوم شہدائے کشمیر پر مقبوضہ وادی میں پہلی مرتبہ عام تعطیل نہیں ہوگی۔یوم شہدائے کشمیر کے موقع پر پاکستان ، ریاست جموں وکشمیر کے دونوں اطراف اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری نے تقریبات،ریلیاں اور سیمینارز کا انعقاد کرکے عظیم کشمیری شہداءکو خراج عقیدت پیش کریں گے ۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر کی خصوصی ہدایت پر مرکزی تقریب آزادجموں وکشمیر میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ مظفرآباد میں منعقد ہوگی جس کشمیری شہداءکو سلام عقیدت پیش کیا جائے گا ۔ یوں تو مقبوضہ وادی سات دہائیوں سے شہیدوں کے لہو کی گواہ ہے لیکن 13جولائی 1931ءکادن کشمیریوں کی تاریخ کا ایک ایساخون آشام دن ہے جب سری نگر میں 22بے گناہ مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے تحریکِ آزادی کشمیر کی بنیاد رکھی 89 سال پہلے کشمیریوں کا کیے جانے والا ناحق خون آج بھی تروتازہ ہے، حریت پسند جاں بازوں کی یاد میں یوم شہدائے کشمیر منایا جارہا ہے۔13جولائی1931کو مرد مجاہد عبدالقدیر خان کے دیدار کے لیے مظلوم کشمیری سری نگر جیل کے باہر جمع تھے جہاں سے عبدالقدیر خان کو عدالت لے جایا جانا تھا، اس دوران نماز ظہر کا وقت ہوگیا اور کشمیری مظاہرین کو نماز ادا کرنے کی اجازت بھی نہ ملی۔ایسے میں ایک کشمیری اذان کے لیے اٹھا تو ڈوگرہ مہاراجہ کے سپاہی نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور پھر یکے بعد دیگرے 21جانوں کا نذرانہ دے کر حریت پسندوں نے اذان مکمل کی ۔خون کی اس ہولی کے خلاف کشمیری ہر سال 13جولائی کویوم شہداءمناتے ہیں اور اپنے اس عہدکو مزید مستحکم کرتے ہیں کہ کشمیر میں آخری مسلمان تک اور آخری مسلمان کے آخری قطرہ خون تک آزادی کی جنگ جاری رہے گی۔امن کی دشمن اور خون کی پیاسی مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو گزشتہ سال پانچ اگست کے غیرقانونی اقدام کے بعد فوجی چھاونی میں تبدیل کررکھا ہے۔ قابض افواج کشمیریوں کو محکوم رکھنے اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کررہی ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ آواز پہلے سے کہیں زیادہ بلند تر ہوجاتی ہے۔