اسٹبلشمنٹ کو اپنی غلطی مان کر معافی مانگنی پڑے گی، مولانا فضل الرحمن

ہم بھی چاہتے ہیں فوج ملکی دفاع کے سوا کوئی اور کام نہ کرے، عدلیہ بھی سینیٹ الیکشن میں فریق نہ بنے

26 مارچ کو پورے پاکستان سے لانگ مارچ کے قافلے حکمرانوں کو بہاکر لے جائے گا،حیدرآباد میں جلسے سے خطاب

حیدر آباد( ویب نیوز)پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم)کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے اسٹبلشمنٹ سے ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں اس کو مان کر قوم سے معافی مانگنی پڑے گی۔ہم بھی چاہتے ہیں فوج ملکی دفاع کے سوا کوئی اور کام نہ کرے، عدلیہ بھی سینیٹ الیکشن میں فریق نہ بنے،پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے حیدرآباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج حیدر آباد میں تاریخ کے فقیدالمثال جلسے پر سندھ دھرتی کے بھائیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ صباح نیوز  کے مطا بق انہوں نے کہا کہ یہ عظیم الشان اجتماع اس بات کا پیغام ہے اور نہ صرف حکمرانوں کو آواز نہیں دی بلکہ دنیا کو جنجھوڑا ہے اور پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالکوں کو بتایا ہے کہ حکومتیں آپ کی وجہ سے عوام کے ووٹ سے بنیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ آج ہم پاکستان میں آزاد فضاوں کو یکجا کرنے کے لیے نکلے ہیں، یہ تحریک اپنی منزل کو پہنچے گی۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سمندر موجیں مار کر نہیں تھکتا اور سمندر کے اندر مچھلیاں تیرتی تیرتی نہیں تھکتی اور پاکستان کی سیاست میں ہمارا کارکن بھی اس وقت تک فعال رہیں گے جب تک یہ حکمران تھک نہیں جاتے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے عہد کیاہے کہ جب تک پاکستان کے اقتدار سے ان نااہلوں کو نکال باہر نہیں کرتے ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ حکمران ناجائز راستے اور چور دروازے سے اقتدار میں آئے۔انہوں نے کہا کہ ‘مجھے یہ باتیں بھلی لگتی ہیں کہ ہمارے ملک کی اسٹبلشمنٹ کہتی ہے کہ ہمارا سیاست سے تعلق نہیں ہے، ہم کب چاہتے ہیں کہ ہماری فوج سیاست میں ملوث ہو، ہم کب چاہتے ہیں کہ وہ دفاع کے علاوہ کوئی اور کردار ادا کرے لیکن کیا کریں غلطیاں ہوئی ہیں اور ان غلطیوں کا ماننا پڑیں گی اور قوم سے معافی مانگنا پڑے گی، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے’۔ اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور ہم جانب دار ہیں، تو ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری فوج سیاست میں ملوث نہ ہو اور دفاع کے سوا کوئی اور کام نہ کرے ،مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ‘میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے انتخابات کے نتائج تبدیل نہیں کیے اور عمران خان جیسے نااہل اور ان کی جماعت کو اقتدار نہیں دیا تو آپ نے اسی رات کیوں کہا کہ وتعز من تشاو تزل من تشا’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘آپ نے عزت و ذلت کے حوالے سے ان کو مبارک دی اور مجھے حیرت ہوئی جب کہا گیا کہ ہم نے تو دشمن کو شکست دی ہے، انتخابات پی ٹی آئی نے جیتے ہیں اور فتح کا اعلان آپ کر رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں اس کامیابی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم اپوزیشن واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آپ نے شکست دی ہے تو کس کو دی ہے، آپ نے فتح حاصل کی ہے تو کس کے مقابلے میں کی ہے، اگر آپ بھارت کو شکست دیں، سرحد پر پاکستان کے جھنڈے گاڑ دیں، اگر کشمیر کو بھارت کے پنجے سے آزاد کرالیں تو ہم آنکھوں کے پلکوں پر فوج اور جرنیل کو بیٹھانے کے لیے تیار ہیں لیکن بتایا جائے کہ فتح کس کے خلاف تھی اور یہ شکست کس کو دی گئی تھی’۔صدر پی ڈی ایم نے کہا کہ ‘آپ اگر پاکستان کے عوام کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں تو پھر واضح کردیجیے، آپ پاکستان کے عوام کو شکست دیتے ہیں تو آپ فتح کا اعلان کرتے ہیں، یہ سیاست نہیں چلے گی، ہم نے بزدلی کی سیاست نہیں دیکھی، ہم نے حق کی آواز بلند کی ہے اور بلند کرتے رہیں کہ تاوقتیکہ آئین کے مطابق تمام ادارے کام شروع نہ کردیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم آج جس محاذ پر ہیں، ہم اپنی رکاوٹیں جانتے ہیں، ہم جمہوریت کے راستے میں جو سنگ راہ اس کو سمجھتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں،ہمیں سیاست میں 40 سال ہوئے ہیں خدا کے لیے ہمیں سیاست کا اب ج مت سکھائیے، ہم پرائمری اسکول کے بچے نہیں ہیں کہ آپ ہمیں بلیک بورڈ پر اے بی سی اور اب ج پڑھائیں گے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘سیاست سیکھنی ہے، سیاست کے اصول جاننے ہیں تو پھر ہماری شاگردی کرنی ہوگی، ہمارے بغیر آپ کو سیاست نہیں آئے گی اور یہ یاد رکھیے کہ ہم نے کوئی کچی گولیاں نہیں کھائیں، ہم لڑنا جانتے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم ملک کے آئین کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہم پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہم اس قوم کی عزت و وقار اورحق کی جنگ لڑ رہے ہیں، قوم کے ووٹ کے حق کی جنگ لڑ رہے ہیں اورجب تک قوم کو اس کے ووٹ کا حق نہیں دلائیں گے آرام سے نہیں بیٹھیں گے اور ہماری پیش رفت چلتی رہے گی’۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ‘آج سرکاری ملازمین کو تنخوا دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور کہتے ہیں ہم لوگوں کو ایک کروڑ نوکریاں دیں گے، قوم کے سامنے جھوٹ بولتے ہو، دھوکا دیتے ہیں اور ایک ایک بات کو چاٹتے ہو اورمسخرہ بن گئے ہو’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ایک منصوبے کے تحت ایسے لوگوں سے پاکستان کی پارلیمنٹ کو بھرا گیا کہ اگر یہ لوگ پارلیمنٹ کے اندر ہیں تو اس بڑھ کر پارلیمنٹ کی بے توقیری نہیں ہوسکتی، جن کو حکومت، وزیراعظم کا منصب سپرد کردیا گیا اور کابینہ کے وزارتوں کے منصب جن کو دیا گیا، اس منصب کی اس سے بڑھ کر بے توقیری نہیں ہوسکتی جس طرح دو سال سے ہو رہی ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘آج سینیٹ کے انتخابات کروائے جا رہے ہیں، جس طرح 2018 میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ملک کے انتخابات میں دھاندلی کرائی گئی، آج سینیٹ کے انتخابات میں دھاندلی کا بڑا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، سمجھ میں نہیں آرہی ہے کیا کریں، کبھی آئین اور کبھی قانون میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘الیکشن کمیشن کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے جہاں ووٹ بیلٹ کاتصور ہوگا وہاں خفیہ کا تصور بھی ہوگا اور ہم ہاتھ اٹھا کر ووٹ دینے کے حق میں نہیں ہیں، عدالت کا مسئلہ چلا گیا، عدالت کو امتحان میں ڈالا گیا’۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ‘میں آج بھی عدالت کو احترام فاضل جج صاحبان کے عزت و اکرام اور مقام کو مد نظر رکھتے ہوئے ضرور استدعا کروں گا کہ اس مسئلے پر عدالت خود کو فریق نہ بنائے کیونکہ وہ خود کہہ چکے ہیں کہ آئین خاموش ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘آئین جہاں بولتا ہے اور ابہام ہو تو پھر عدالت تشریح کر سکتی ہے لیکن اگر آئین خاموش ہے تو اس خاموشی کو سوائے پارلیمنٹ کے کوئی نہیں توڑ سکتا، اس کے لیے آئینی ترمیم لانی ہوگی، عدالت اس دھندوں میں نہ پڑے اور نہ ہی اپنے آپ کو ملک کی سیاست میں متنازع بنائے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘آج جو کچھ کیا جا رہا ہے عدالتوں کے خلاف بھی مجھے عمران خان حکومت کی سازش لگتی ہے’۔حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘آج پاکستان کی معیشت کا یہ عالم ہوگیا کہ غریب آدمی اپنے بچوں کو نہروں او دریاں میں پھینک رہے ہیں کیونکہ ان سے اپنے بچوں کی بھوک نہیں دیکھی جا رہی ہے، پاکستان کی سالانہ ترقی کی شرح صفر سے نیچے چلی گئی ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘عمران حکومت کی بقا پاکستان کے خاتمے کی علامت ہوسکتی ہے اور ہم پاکستان کی بقا کی جنگ لڑتے رہیں گے’۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے جزائر پر سندھ کے عوام، بلوچستان کے جزائر پر بلوچستان کے عوام کا حق ہے، کسی قیمت پر وفاق کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ان علاقوں کے جزائر پر قبضہ کر سکے، سندھ میں جو کمپنیاں آتی ہیں وہ چوکیدار تک بھی اپنے ملازم باہر سے لاتے ہیں کیا سندھی غریب کو حق حاصل نہیں کہ وہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمت کرے۔صدر پی ڈی ایم نے کہا کہ ہم سندھ کے غریب ہاری، غریب مزدور اور ملازم کی جنگ لڑیں گے اور ان کے حقوق کی جنگ لڑیں گے، ہم نے کچھ عزم کیا ہے اور اس کی طرف بڑھیں گے۔انہوں نے کہا کہ ‘یہاں سیاست دانوں کی تذلیل کی جاتی ہے، نیب کا ادارہ فوج نے بنایا، پرویز مشرف نے بنایا اور صرف اس لیے بنایا کہ سیاست دانوں پر مقدمے دائر کیے جائیں، ان کو مقدموں میں پھنسایا جائے، ملک کی سیاست نہ کرسکیں، پھر یہ کہتا ہے سیاست دان تو مجھ سے این آر او چاہتے ہیں، مجھے پتہ کتنی دفعہ تم نے منت کی ہے کہ مجھے این آر او دو لیکن ہم آپ کو این آر او نہیں دے رہے ہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘فارن فنڈنگ کیس ہم نے دائر نہیں کیا، پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام، پاکستان مسلم لیگ یا پی ڈی ایم نے نہیں کیا بلکہ ان کے اپنی پارٹی کے بانی اراکین نے دائر کیا ہے اور آج ایک نے ا اعتراف آگیا ہے کہ بہت سا پیسہ جو باہر سے آیا وہ عمران خان کے ذاتی ملازمین کے نام پر آیا، بنی گالا میں آیا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘چوروں کے سردار تم ہو اور نعرے لگا کہ دوسرے چور ہیں، خود کہتے تھے کہ ٹرانسپرنسی نے جس کے بارے میں کہہ دیا کرپٹ ہے تو وہ کرپٹ ہے اور آج ٹرانسپرنسی نے کہہ دیا ہے کہ اس دور میں کرپشن بڑھ گئی ہے، کرپشن کے سردار تم، چوروں کے سردار تم ہوں، بھارت سے پیسے بٹورنے والے تم ہو اور آپ دوسروں کو یہ بات کہتے ہو’۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ‘ہم اس حکومت اور اس کی نیب کو بے بس کردیں گے، جب تک حکومت کا اپنا احتساب نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ ہمارا احتساب نہیں کر سکتے’۔انہوں نے کہا کہ یہ کیسا نظام ہے کہ آپ مزدوروں کو حقوق تو نہیں دے سکتے لیکن داسو ڈیم کے مزدوروں پر آج گولی چلائی گئی ہے اور ملک کے ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے ان پر گولی چلائی ہے اور اس وقت بھی ایک سے 4 تک موت و حیات کی کش مکش میں ہیں اور شہید بھی ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں سرکاری ملازمین جمع ہو رہے ہیں، کل ان کا اجتماع ہو رہا ہے، آج حیدر آباد کے عظیم اجتماع کی نمائندگی کرتے ہوئے میں ان سرکاری ملازمین کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلاتا ہوں۔ ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج ملک کا ملازم، ڈاکٹر، وکیل، استاد، تاجر ہر شعبہ ہائے زندگی کا شخص احتجاج کررہا ہے، پی ڈی ایم ان کی قیادت کرے گی، 26 مارچ کو پورے پاکستان سے لانگ مارچ کے قافلے روانہ ہوں گے اور پنڈی و اسلام آباد کی طرف ایک سمندر رواں دواں ہوگا جو حکمرانوں کو بہاکر لے جائے گا