اسلام آباد(خصو صی رپورٹ)سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے کیس میں وزیراعظم کی طرف سے اسمبلی میں دیئے گئے بیان کی کاپی طلب کرلی ہے جبکہ ایک درخواست گزار کی طرف سے لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ چیف جسٹس کا کام ہے انہیں درخواست دی جائے ، ایک وکیل کی طرف سے نواز شریف کو کام کرنے سے روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہوں نے ریمارکس دیئے کہ پہلے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ درخواست قابل سماعت بھی ہے کہ نہیں اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالتی وقت کم ہونے کے باعث سماعت دو ا کتوبر تک ملتوی کردی گئی ۔ پیر کو گوہر نواز سندھو ، اسحاق خان خاکوانی اور مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی تو ابتدا میں ہی جسٹس جواد ایس خواجہ اور اسحاق خاکوانی کے وکیل عرفان قادر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا جب وقت کم ہونے کی بات ہوئی تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پہلے بھی دو مرتبہ کیس کیلئے آواز دی گئی تھی لیکن آپ لوگ شاہد چائے پی رہے تھے اس پر عرفان قادر نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ باری کے بغیر آواز دے دی جائے گی میں اس وقت باتھ روم میں تھا اور ایسی حالت میں تو کوئی پیش نہیں ہوسکتا ۔اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ قصور ہمارا ہے آپ کا نہیں ۔ عرفان قادر نے کہا کہ اصل قصور نظام کا ہے جسٹس جواد نے کہا کہ جب میں کہہ رہا ہوں کہ قصور ہمارا ہے تو بات ختم ہوجانی چاہیے ۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والے درخواست گزار گوہر نواز سندھو نے دلائل کی ابتدا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے زبانی طور پر اس درخواست کیلئے لارجر بینچ بنانے کی اپیل کی تھی اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس کی زبانی اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لارجر بینچ بنانا چیف جسٹس کا کام ہے اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو اس کیلئے انہیں درخواست دیں ۔ درخواست گزار نے کہا کہ وزیراعظم نے اسمبلی میں بیان دیا کہ دھرنے والے رہنما خود آرمی چیف کے پاس گئے تھے جبکہ آئی ایس پی آر نے وضاحت کی ہے کہ حکومت نے خود فوج سے مدد طلب کی تھی اس طرح وزیراعظم نے غلط بیانی کی ہے اس پر مزید دلائل دیتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ غلط بیانی پر بہت سے اراکین پارلیمنٹ نااہل ہوچکے ہیں جن میں وزیراعظم بھی شامل ہیں نواز شریف کو بھی نااہل قرار دیا جائے اور اس درخواست کے فیصلے تک انہیں کام کرنے سے روک دیا جائے ۔ اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہمیں پہلے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ درخواست قابل سماعت بھی ہے کہ نہیں عرفان قادر نے کہا کہ فوج کو ہم نے ثالث نہیں بنایا جنہوں نے بتایا ان سے ریکارڈ منگوائیں اس پر عدالت نے حکم دیا کہ اسمبلی کے فلور پر وزیراعظم کی طرف سے دیئے گئے بیان کی کاپی فراہم کی جائے ۔ بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کردیا اور سماعت یکم اکتوبر تک ملتوی کی گئی مگر وکیل کی استدعا پر اس تاریخ کو دو اکتوبر کردیا گیا ۔