قابل احترام رفقاءجج صاحبان،عدالتِ عظمیٰ پاکستان
فاضل اٹارنی جنرل برائے پاکستان،
فاضل نائب چیئرمین ،ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل،
فاضل صدر، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن،
دےگرقابل احترام عہدیداران و اراکین ِبار،
خواتین و حضرات۔
 
السلامُ علیکم!
                                گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی نئے عدالتی سال 2016-17ءکے آغاز کے موقع پرمےںاپنی اور اپنے رفقاءجج صاحبان کی جانب سے آپ تمام شرکاءکو خوش آمدید کہتا ہوں۔ قانون و انصاف کے شعبے سے وابسطہ قابل قدر شخصیات کا یہاں موجود ہونا ہمارے لیے باعث اطمینان ہے اور فراہمی انصاف کے سلسلے میں ہماری مشترکہ کاوشوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات میں عدالت کو نت نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس سے بہتر انداز میں نبردآزما ہونے کے لیے آپ لوگوں کی تائید اور معاونت کی ضرورت رہتی ہے۔
                                ایسی تقریب سے نہ صرف وکلاءبرادری بلکہ عام شہریوں کوبھی انصاف کی فراہمی اورقانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے سلسلے میں عدلیہ کی جانب سے کی جانے والی کاوشوں کو جاننے اور عدلیہ کے فیصلوں سے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عدلیہ کو بار کے عہدیداران کی جانب سے مفید آراءاور مشورے حاصل ہوتے ہیں جن کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کیا جاتا ہے اور اس طرح فراہمیِ انصاف میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔
                                جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ روایتی طور پر عدالتی چھٹیوں کا نظام برصغیر کی تقسیم سے قبل سے چلا آرہا ہے مگر گزشتہ کچھ سالوں سے ہم نے اس روایت کو تبدیل کیا ہے یعنی اگرچہ چھٹیوں کا اعلان توکیا جاتا ہے مگر درحقیقت اس دوران بھی مقدمات کی سماعت کاسلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس سال بھی میں نے اور رفقاءجج صاحبان نے زیر التوا مقدمات کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے چھٹیوں کے دوران بھی مقدمات کی سماعت کا فیصلہ کیا اورمین رجسٹری کے ساتھ ساتھ برانچ رجسٹریوں میں بھی مقدمات کی سماعت کی گئی۔
خواتین و حضرات!
                                جیسا کہ آپ جاتنے ہیں قیام پاکستان کی بنیاد اس نظریے پر تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے اےک علیحدہ ملک ہونا چاہےے جس میں وہ آزادی کے ساتھ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکیں۔ جہاں شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔ جہاں ذات پات، رنگ و نسل، عقید ہ ومذہب کی بنیاد پر زیادتی اور ناانصافی نہ ہو۔ جہاں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنے اپنے عقائد پر عمل کرنے میں آزاد ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے اپنے 11اگست 1947ءکے خطاب میں ارشاد فرمایا تھا کہ :۔
آپ سب آزاد ہیں۔ ریاست پاکستان میں آپ سب اپنے مندروں میں، اپنی مساجد میں اور دیگر عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ چاہے کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوںاس سے ریاست کی کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔۔۔۔۔۔۔ہم اس بنیادی اصول پر کاربند ہیں کہ ہم ایک ہی ریاست کے شہری ہیں اور برابر حیثیت کے شہری ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اس بات کو مثالی حیثیت میں یاد رکھنا ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ ایسا کرنے سے وقت کے ساتھ ساتھ ہندواورمسلم کا امتےاز ختم ہوجا ئے گا۔ ایسا مذہبی لحاظ سے نہ ہو گا، کیونکہ وہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے، بلکہ سیاسی لحاظ سے، بطور ایک ریاست کے شہر ی ہونے کی حیثیت سے ہو گا۔"
                                یہاں پر قائد کا مقصد ہرگز یہ نہ تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ملک ہو گا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو برابرکے حقوق حاصل ہوں گے اور ریاست غےر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کی ، قرآن و سنت کی روشنی میں، ضمانت فراہم کرے گی۔ قائد کی سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے آئےنِ پاکستان میں مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ نہ صرف قرار دادِ مقاصد، جسے بعد میں آرٹیکل 2A کے ذرےعے آئےن کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے،میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے گا جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق گزار سکیں۔ جس میں لازمی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذاہب پر قائم رہ سکیں اور اس کے مطابق عمل کر سکیں۔ بلکہ آرٹیکل 20 کے تحت ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے کا بنیادی حق دیا گیا ہے۔
                                اگر ہم آج اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہر طرف عدم برداشت کا دور دورہ ہے۔ لوگ رنگ و نسل اور ذات پات کی بنیاد پر ٹکڑوں میں تقسیم ہیں۔ جن میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم سب سے زےادہ قابل فکر امر ہے۔ اس سے معاشرے میں نہ صرف امن و امان کی صورتحال پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ دہشت گردی کو بھی فروغ ملتا ہے۔ اس صورتحال میں اداروں کے ساتھ ساتھ تمام شہریوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ برداشت اور رواداری کو فروغ دیں تا کہ معاشرے سے عدم برداشت کو بتدریج ختم کیا جا سکے اور ہمارا ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکے۔
                                علاوہ ازیں ہمارا ملک جس دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اس میں اگرچہ اکثر اوقات بیرونی ہاتھ شامل ہوتا ہے مگر اسے کہیں نہ کہیںسے ہمارے اندر سے بھی حمایت اور مدد حاصل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میںبدقسمتی سے بعض سیاسی جماعتیں بھی اپنے مفادات کی خاطر ان عناصر کی حمایت کرتی ہیں۔ جیساکہ کراچی بد امنی کیس اور بلوچستان بدامنی کیس میں یہ عدالت اس بات کا ذکرکر چکی ہے کہ بعض تخریبی عناصر کے روابط اور تعلقات مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں سے پائے گئے ہیں جس کا فوری تدارک کیا جانا چاہیے۔
                                یہاں میں افسوس کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نہ صرف وکلاءبرادری بلکہ عدلیہ کو بھی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ کےونکہ جب دہشت گردوں ، تخریب کاروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو سزا دینے کا معاملہ آتا ہے تو وکلاءکی معاونت کے ساتھ عدلیہ کو یہ فریضہ سر انجام دینا ہوتا ہے۔ لہٰذا فراہمی انصاف کے اس ادارے کو خوف زدہ کرنے کی نیت سے تخریبی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چاہے وہ کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی ہو، مردان ضلع کچہری میں ہونے والا حملہ ہو، ماضی میں وکلاءاور عدالتوں پر ہونے والے حملے ہوں یا سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے بیٹے کے اغواءکا معاملہ ہو ہم سب اس کی بھر پورمذمت کرتے ہےں۔ مستقبل میں ایسے افسوسناک واقعات کے تدارک کے لیے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں عدلیہ اور انتظامیہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس بلائے گئے تھے۔ جن کی روشنی میں انتظامیہ اور پولیس کو ضروری ہدایات جاری کی گئیں۔ اس کے علاوہ ضلع کی سطح پر ضلعی تحفظاتی کمیٹیاں(District Security Committees)بھی تشکیل دی گئی ہیں جو علاقائی سطح پر حالات کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات مرتب کریں گی۔
خواتین و حضرات!
                                آئےنِ پاکستان میں ایک منصفانہ ریاست کا اصول وضع کیا گیا ہے۔ ایک ایسی ریاست جہاں آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی ہواور میرٹ کے اصول پر عمل درآمد ہو۔ ایسا صرف اُسی وقت ممکن ہے جب فراہمی انصاف کا نظام موثر ہو اور ہر شخص کی نہ صرف نظامِ انصاف تک رسائی ہو بلکہ فوری اور سستے انصاف کا حصول ممکن ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آئےن کے تحت ریاست پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔ ریاست کا اہم جزو ہونے کی وجہ سے عدلیہ بھی اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہےں ہے۔ نہ صرف مجھے بلکہ میرے رفقاءجج صاحبان کو بھی اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ مقدمات کے فیصلے میں تاخیر سے فریقین مقدمہ کو در پیش مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں اس ناسور پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی ہے۔ مقدمات کی سماعت کے دوران ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ بڑی تعداد میں مقدمات کے اندراج کی وجہ مختلف اداروں کے اہلکاروں کی نا اہلی اور بد دیانتی ہے۔اگر تمام ادارے اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں اور بددیانتی اور کرپشن کو ختم کریں تو نہ صرف عدلیہ پر غےر ضروری بوجھ ختم ہو جائے گا بلکہ عوام کو بھی غیر ضروری عدالتی چارہ جوئی سے چھٹکارا حاصل ہو گا۔
                                مقدمات کے فیصلے میں ہونے والی تاخیر کی وجوہات میں سے اےک وجہ وکلاءکی جانب سے مکمل تیاری کے ساتھ عدالت میں پیش نہ ہونا اور غےر ضروری التواءلیناشامل ہے۔ اس پر قابو پانے کے لئے ہمیں بار کی حمایت اور تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں میں نے وقتاً فوقتاً بار کے نمائندگان سے ملاقات کی اور باہمی مشاورت سے ایک لائحہ عمل ترتیب دیا ۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ اس کے خاطر خواہ فوائد حاصل نہ ہوسکے۔ بحیثیت ایک آئےنی ادارہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنی صفوں کو درست کریں تا کہ اپنی ذمہ داریوں سے بہتر انداز میں عہدہ برآءہو سکیںاور اعلیٰ سطح سے نیچے تک فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میں وکلاءاور دیگر اداروں کا تعاون بہت ضروری ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ممبران بار مستقبل میں اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کریں گے تا کہ مقدمات میں ہونے والی تاخیر پر قابو پایا جا سکے اور سائلین کو انصاف کی فوری فراہمی ممکن ہوسکے۔
                                موجودہ حالات میں ضلعی عدلیہ جو کہ عدلیہ کا ایک اہم جزو ہے میں بہتری لانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے عوامل غور طلب ہیں۔ ان میں ضلعی عدلیہ کے جج حضرات کی کارکردگی پر نظر رکھنا اوران کی بہتر تربیت کا انتظام کرنا، جج حضرات کی دیانت داری کو یقینی بنانا، اےسے نظام کی تشکیل جس سے فریقین کو فوری انصاف تک رسائی ممکن ہوسکے اور مختلف اداروں جن میں ضلعی عدلیہ، استغاثہ اور پولیس شامل ہیں کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دیناوغےرہ شامل ہیں۔ ان عوامل کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسا کرنے سے فراہمیِ انصاف میں در پیش مشکلات پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
                                آئین میں تمام اداروں کے فرائض اور دائرہ اختیار کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ لہٰذا اداروںکے لئے ضروری ہے کہ اپنی آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کریں۔ اسی صورت میں ملک کے اندر گڈ گورننس کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ ملک کی بدلتی ہوئی معاشرتی اور اقتصادی صورتحال کو دیکھتے ہوئے تمام ریاستی اداروں کے لےے یہ بھی لازمی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں اور باہمی مشاورت کے ساتھ آگے بڑھیں تا کہ در پیش مشکلات اور چیلنجوں کا مقابلہ مشترکہ طور پرکیا جا سکے۔ ماضی میں کچھ عناصر کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ شاید اداروں میں تصادم کی سی صورتحال ہے۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے عدلیہ اور مقننہ نے بین الادارتی مقالمہ کی ضرورت محسوس کی۔ اس سلسلے میں پہلے سپریم کورٹ کی دعوت پر جناب چےئرمین سینیٹ نے سپریم کورٹ میں خطاب کیا۔ جس کے بعد 30 نومبر2015ءکو میں نے عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے عدالتی اصلاحات کے حوالے سے سینیٹ میں خطاب کیا۔ اس طرح نہ صرف اداروں کے مابین تعاون کو فروغ حاصل ہوا بلکہ مستقبل میں اس میں مزید بہتری کی امید ہے۔
                                اب ایک جائزہ عدالت عظمٰی کی سالانہ کارکردگی کے بارے میں۔
خواتین و حضرات!
                                گزشتہ سال یکم ستمبر 2015ََءکو سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد تقریباً 28 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ستمبر 2015 سے اگست 2016 کے دوران 21 ہزار سے زائد نئے مقدمات دائر کئے گئے اور تقریباً 271 کے قریب مقدمات بحال ہوئے۔ اس طرح زیر التوا مقدمات کی کل تعداد49 ہزار سے زائد ہو گئی۔ زیر التواءمقدمات کی تعداد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور فریقین کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے دو سابقہ جج صاحبان جناب جسٹس طارق پرویز صاحب اور جناب جسٹس خلجی عارف حسین صاحب کو بطور ایڈہاک جج سپریم کورٹ کام کرنے کی درخواست کی گئی جو انہوں نے قبول کر لی۔ ان کی شمولیت سے سپریم کورٹ کی کارکردگی میں خاطر خواہ اضافہ ہواہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ جج صاحبان نے چھٹیوں کے دوران بھی عدالتی کام کوسر انجام دیا اور اس طرح ہم18 ہزار سے زےادہ مقدمات کافیصلہ کرنے میں کامیاب ہو ئے۔ لیکن ان سب کاوشوں کے باوجود زیر التوا مقدمات کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔یہاں یہ امر قابلِ غور ہے کہ اہم نوعیت کے آئےنی معاملات کا جائزہ لینے اور دیگر کئی اہم مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے لارجر بینچ تشکیل دےے گئے جس کی وجہ سے بھی معمول کے کیسوں کے فیصلے کی شرح پر اثر پڑا۔اس کے علاوہ وکلاءکی طرف سے ذاتی وجوہات کی بناءپر التواءکی درخواستوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اگر ان عوامل کا سامنا نہ کرنا پڑتا تودائری کی شرح میں اضافہ کے باوجود زیر التواءمقدمات میں مزیدکمی واقع ہوتی۔
                                اس سال بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے سپریم کورٹ میں قائم کےے گئے ہیومن رائٹس سیل نے عوامی شکایات کے ازالے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ اس شعبہ میں زیر التواءشکایات کی تعداد10917 تھی۔ گزشتہ سال کے دوران 30448شکایات موصول ہوئیں جب کہ 31669شکایات کو نمٹایا گیا۔اس طرح زیر التواءشکایات کی تعداد کم ہو کر 10096 رہ گئی۔ بیرون ِ ملک پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لئے قائم کئے گئے شعبے میں زیر التواءشکایات کی تعداد 1542 تھی جبکہ 1963نئی شکایات موصول ہوئیں جن میں 1432شکایات کو نمٹایاگیا۔اس طرح اب اس شعبہ میں زیرالتواءشکایات کی تعداد 2073ہے۔ مستقبل میں زیرالتواءشکایات کی تعدادمیں کمی لانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی تا کہ عوام کو مزید ریلیف مل سکے۔
                                گزشتہ سال کے دوران دو قابل احترام جج صاحبان جناب جسٹس سرمد جلال عثمانی صاحب اور جناب جسٹس اعجاز احمد چوہدری صاحب مدتِ منصبی کی بخوبی تکمیل کے بعداپنے منصب سے عہدہ براءہو گئے۔ اگرچہ آج وہ دونوں جج صاحبان بینچ کا حصہ نہیں ہیں مگر ان کے فیصلے ہمیشہ قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام افرادکے لئے مشعل راہ رہیں گے۔ اسی عرصہ کے دوران چار فاضل جج صاحبان جناب جسٹس منظور احمد ملک صاحب، جناب جسٹس سردار طارق مسعود صاحب، جناب جسٹس فیصل عرب صاحب اور جناب جسٹس اعجاز الاحسن صاحب بطور جج سپریم کورٹ ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔ اس طرح اب سپریم کورٹ میں جج کی تمام تر آسامیوں پر ججز کی تعیناتی مکمل ہو گئی ہے۔
خواتین و حضرات!
                                ماضی میں اس عدالت پر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ یہ انتظامی معاملات میں ضرورت سے زےادہ مداخلت کرتی ہے۔ ہم نے اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے کوشش کی کہ از خودکارروائی کے اختیار کوکم سے کم استعمال کیا جائے۔ مگر اپنی آئےنی ذمہ داری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ عدالت اپنی آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی اور جہاں بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو وہاں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کا تدارک کیاجائے۔ لہٰذاسالِ گزشتہ کے دوران چند معاملات میں از خود نوٹس لےتے ہوئے کاروائی کی گئی ان میں سندھ کے شعبہ صحت اور نیب میں ہونے والی غےر قانونی بھرتیاں، پی آئی اے میں مسافروں کو ٹکٹوں کی رقم کی واپسی کا معاملہ، مارگلہ ہلز اور دیگر علاقوں سے پہاڑوں کی کٹائی سے ہونے والے ماحولیاتی نقصان ،کوئٹہ کے ہسپتال کی ناگفتہ بہ حالت ، ایف آئی اے میں ڈیپوٹیشن پر پولیس افسران کی بھرتیاں، مردم شماری میں ہونے والی غےر ضروری تاخیر، الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری میں ہونے والی تاخیر،انسانی اعضاءکی غےر قانونی پیوند کاری، صوبہ پنجاب میں بچوں کی اغوا ءکے بڑھتے ہوئے واقعات اور سانحہ کوئٹہ شامل ہیں۔
                                اس کے علاوہ، قانون و انصاف کمےشن کی ذمہ دارےوں مےں قوانےن کی اصلاح اور انہےں جدےد اورموثر بنانے کے ساتھ ساتھ اہم مسائل پر غور و فکر کرنے کے لئے سےمےنار، ورکشاپ اور لےکچرز کا اہتمام کرنا بھی شامل ہے۔اس سلسلے میں بنےادی حقوق کے بےن الاقوامی دن کی ےاد مےں 10دسمبر 2015ءکو "بنےادی حقوق۔ انصاف پر مبنی معاشرے کے قےام کا وعدہ”کے عنوان سے اےک سےمےنار کا انعقاد کےاگیااور آگہی مہم کے تحت قانون و انصاف کمےشن کی جانب سے عوام الناس کو بنےادی حقوق، آئےن کی تمہید اور پالےسی اصولوں کے بارے مےں آگاہ کرنے کےلئے اردو اور انگرےزی زبان مےں مواد تےار کرکے اسے متعلقہ اداروں کو فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیاتاکہ ان لوگوں کی مدد اور راہ نمائی کی جاسکے جو انصاف تک رسائی کی استعداد نہےں رکھتے ۔ اسی طرح 12-13 اپریل 2016ءکو صوبائی انصاف کمےٹےوں کی پہلی کانفرنس کے انعقاد کا اہتمام کےا گیاتاکہ صوبائی سطح پر فوجداری نظام انصاف سے وابستہ اداروں کے سربراہان باہمی مشاورت سے ان اداروں کے کام کو مربوط بنا کر اپنی کارکردگی کوبہتر بنا سکےں ۔اس کے علاوہ”شعبہ انصا ف مےں انفارمےشن ٹےکنالوجی کا استعمال کےلئے اےک قومی پالےسی کی تشکےل اور منصوبہ بندی کی راہ پر” کے عنوان سے شعبہ انصاف مےں انفارمےشن ٹےکنالوجی کے استعمال کی ضرورت و اہمےت کے حوالے اےک ورکشاپ اور نمائش کا اہتمام کےاجس مےں اس بات کا ادراک کےا گےا کہ انفارمےشن ٹےکنالوجی کا موثر استعمال خدمات کی انجام دہی مےں انقلاب برپا کرسکتا ہے۔بطور چےئرمین قانون و انصاف کمیشن مجھے ان کانفرنسوں اور ورکشاپوں کی صدارت کا اعزازحاصل ہوا۔مجھے امید ہے کہ ان کانفرنسوں اور ورکشاپوں کی تجاویز اور سفارشات پر عمل درآمد سے نظامِ انصاف میں مزیدبہتری آئے گی۔
                                یہاں پرمیں اس ےقےن دہانی کے ساتھ آپ سے اجازت چاہتا ہوں کہ ہم فوری اور سستے انصاف کی فراہمی اور قانون کی حکمرانی کے لئے اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی ذمہ داریاں محنت، لگن اور دیانت داری کے ساتھ انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
                                                                                                                                آپ سب کا بہت بہت شکریہ
                                                                                                                                پاکستان پائندہ باد !