وزیراعظم کامعاشی نقصانات کو ریلیف پہنچانے کیلئے تعمیرات کے شعبے کے لیے پیکج کا اعلان
رواں سال تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدن کے بارے میں سوال نہیں ہوگا،

تعمیراتی شعبے پرٹیکس کی شرح فکس کررہے ہیں،جس کے نتیجے میں اس شعبے کے ٹیکسوں کی مجموعی شرح کم ہوجائے گی

،نئے پاکستان ہاؤسنگ اسکیم میں تعمیرات کرنے والوں کو 90 فیصد ٹیکس کی رعایت دیں گے،

سبسڈی دی جائیگی، اسٹیل اور سیمنٹ کے علاوہ تعمیراتی مواد اور خدمات پر سروسز ٹیکس معاف کیا جارہا ہے

،اگر کوئی اپنا مکان فروخت کرے گا تو اس سے کیپیٹل گین ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا،عمران خان
ہمیں نہیں پتہ دو ہفتے بعد کیا ہوگا؟ 22 کروڑ لوگوں کو ہم بند نہیں کرسکتے، یہ ناممکن چیز ہے، خواہش ہے ہمارے دیہاڑی دار کو روزگار ملے،پاکستان میں ایک طرف کوونا ہے اور دوسری طرف بھوک ہے،خوف ہے یہاں لوگ بھوک سے مریں گے، 18 ویں ترمیم کے بعد ایسا کوئی کام نہیں کرناچاہتاکہ لگے وفاق کوئی چیز زبردستی کررہا ہے،ٹائیگر فورس کا مقصد لوگوں کو آگاہی فراہم کرنا ہے، وزیراعظم کی صحافیوں سے گفتگو
اسلام آباد وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ہونے والے معاشی نقصانات کو ریلیف پہنچانے کیلئے تعمیرات کے شعبے کے لیے پیکج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں سال تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدن کے بارے میں سوال نہیں ہوگا، تعمیراتی شعبے پرٹیکس کی شرح فکس کررہے ہیں،جس کے نتیجے میں اس شعبے کے ٹیکسوں کی مجموعی شرح کم ہوجائے گی،نئے پاکستان ہاؤسنگ اسکیم میں تعمیرات کرنے والوں کو 90 فیصد ٹیکس کی رعایت دیں گے، ابتدائی طور پر اس اسکیم کیلئے 30 ارب روپے کی سبسڈی دی جائیگی، اسٹیل اور سیمنٹ کے علاوہ تعمیراتی مواد اور خدمات پر سروسز ٹیکس معاف کیا جارہا ہے،اگر کوئی اپنا مکان فروخت کرے گا تو اس سے کیپیٹل گین ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا،ہمیں نہیں پتہ دو ہفتے بعد کیا ہوگا؟ 22 کروڑ لوگوں کو ہم بند نہیں کرسکتے، یہ ناممکن چیز ہے، خواہش ہے ہمارے دیہاڑی دار کو روزگار ملے،پاکستان میں ایک طرف کوونا ہے اور دوسری طرف بھوک ہے،خوف ہے یہاں لوگ بھوک سے مریں گے، 18 ویں ترمیم کے بعد ایسا کوئی کام نہیں کرناچاہتاکہ لگے وفاق کوئی چیز زبردستی کررہا ہے،ٹائیگر فورس کا مقصد لوگوں کو آگاہی فراہم کرنا ہے۔ جمعہ کو صحافیوں کو پیکج سے آگاہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ رواں سال تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدن کے بارے میں سوال نہیں ہوگا،تعمیراتی شعبے پرٹیکس کی شرح فکس کررہے ہیں،جس کے نتیجے میں اس شعبے کے ٹیکسوں کی مجموعی شرح کم ہوجائے گی۔ وزیراعظم نے کاہکہ نئے پاکستان ہاؤسنگ اسکیم میں تعمیرات کرنے والوں کو 90 فیصد ٹیکس کی رعایت دیں گے، ابتدائی طور پر اس اسکیم کے لیے 30 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ اسٹیل اور سیمنٹ کے علاوہ تعمیراتی مواد اور خدمات پر سروسز ٹیکس معاف کیا جارہا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی اپنا مکان فروخت کرے گا تو اس سے کیپیٹل گین ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔عمران خان نے کہاکہ 150 ارب جاری کرنا شروع کردیے ہیں جس سے غریب طبقے کو مالی مدد فراہم کی جائے گی۔ احساس پروگرام کے تحت 1 کروڑ لوگ ابھی تک مالی مدد کے لیے رجوع کرچکے ہیں لیکن صرف اس طریقے سے عوام کے غریب طبقے کی مدد کرنا اور بقا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں زراعت کے بعد تعمیراتی شعبے سے سب سے زیادہ روزگار ملتا ہے، اس کی سرگرمیاں جاری کرنے کا مقصد یہی ہے کہ روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کو روزگا ملتا رہے۔انہوں نے کہا کہ تعمیراتی شعبے کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دیا جارہا ہے اور اس کے لیے کنسٹرکشن انڈسٹری ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم کی جارہی ہے۔ملک بھر میں تعمیراتی ٹیکس کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ پھر ہم صوبوں سے رابطہ کررہے ہیں اور ان سے مل کر سیلز ٹیکس کم کررہے ہیں، پنجاب اور خیبر پختونخوا نے سارے ٹیکس کو 2 فیصد پر لے آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی سہولت یہ ہے کہ ہم تعمیرات کو صنعت کا درجہ دے رہے ہیں اور آج سے یہ صنعت ہوگی اور ایک بورڈ ‘کنسٹرکشن انڈسٹری ڈیویلپمنٹ بورڈ اعلان کررہاہوں۔عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں پہلی دفعہ ہوگا کہ تعمیرات کی صنعت کے لیے ایک بورڈ ہوگا جس کا کام ہی اپنی صنعت کو پروموٹ کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ صوبوں سے رابطہ کرکے ساتھ چلیں گے جو صوبہ سمجھتا ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی لانا چاہتا تو ہم نے ان سے کہا ہوا ہے لیکن پنجاب اور خبیر پختونخوا اس اسکیم کے تحت چل رہے ہیں اور سندھ بھی کسی حدتک اس کیساتھ چل رہا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اس پیکج کے دو مقصد تھے، سب سے بڑا مقصد مزدور طبقے کو ریلیف دینا تھا اور احساس پروگرام کے ذریعے ایک،ایک خاندان کو12 ہزار روپے پہنچارہے ہیں جو ایک دو دن میں شروع ہوجائیگا۔انہوں نے کہا کہ دیہاتوں میں زرعی شعبے کو سرگرم ہونے کی پوری اجازت دی ہے اور شہروں کے اندر تعمیرات کے شعبے کو تاکہ شہر میں جو مزدور ہیں انہیں روزگار ملے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں ایک طرف کوونا ہے اور دوسری طرف بھوک ہے اورہمیں خوف ہے کہ یہاں لوگ بھوک سے مریں گے، یہی صورت حال ہندوستان میں اور دیگر ممالک کو بھی یہی خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لاک ڈاؤن کی بات کریں تو یہ نہ سوچیں کہ ڈیفنس یا گلبرگ یا امیر علاقے میں لاک ڈاؤن ہوگا لیکن لاک ڈاؤن کامیاب تب ہوگا جب غریب علاقے میں بھی لاک ڈاؤن ہو۔ان کا کہنا تھا کہ وائرس جب پھیلنا شروع ہوتا ہے پھر امیر اور غریب میں تمیز نہیں کرتی پھر برطانیہ کا وزیراعظم کو بھی لپیٹ ہوجاتی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ضروری ہے کہ بحیثیت قوم ردعمل آئے اس لیے قوم فیصلہ کرے کہ اس کا جواب کس طرح دینا ہے اس لیے ہم نے سوچا کہ جب غریب علاقے میں لاک ڈاؤن کریں گے تو وہاں لوگوں کو کھانا پہنچا سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ چین میں ووہان میں لوگوں کو گھروں میں کھانا پہنچایا گیا اور چین میں کامیابی کا راز یہی تھا کہ لوگوں کو گھروں میں ہی کھانا پہنچایا گیا۔انہوں نے کہاکہ کچھ دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ جب غریب محلے میں کھانا دینے جاتے ہیں لوگ حملہ کرتے ہیں ہم نے 1200 ارب کا پیکج دیا ہے اور 150 ارب روپے جاری کردیا ہے۔کورونا وائرس کے حوالے سے پیکج پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جو شہری مدد چاہتے ہیں اس کے لیے ایک کروڑ افراد کی درخواستیں آئی ہیں، اس کے باوجود ہمیں کوئی گارنٹی نہیں ہے 2 یا 4 ہفتے بعد پاکستان میں کیا صورت حال ہوگی۔وزیراعظم نے کہا کہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ ایک طرف ہمارا زراعت کا شعبہ اور دیہات میں اس شعبے کو کھولا ہے کیونکہ ہم نہیں چاہتے ہیں کوئی رکاؤٹ آئے اور اب کٹائی کا موسم آیا۔انہوں نے کہاکہ دیہاتوں کے اندر روزگار کا شعبہ زراعت جس کو ہم نے مکمل طور پر کھولا ہوا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہسپتال کی سپلائی، کھانے اور ریستوران کا شعبہ بھی کھلا ہوا ہے اسی طرح ٹرانسپورٹ کے شعبے کو بھی کھولا ہوا ہے جو چیزوں کو پہنچانا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسکول، شادیاں اور جہاں بھی لوگ جمع ہوسکتے ہیں وہاں لاک ڈاؤن ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ وائرس کتنی تیزی سے پھیل سکتا ہے اور 14 اپریل کو جائزہ لیں گے۔زیراعظم نے کہا کہ یہ سمجھنا کہ پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں اس لیے اموات کم ہوئی ہیں تو یہ سوچ ہی خطرناک ہے، بالکل خطرہ ہے اور عوام سے کہتا ہوں کہ پوری توجہ دیں اور ہر قسم کی احتیاط کریں۔وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن کے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شہروں کے اندر برے حالات ہیں اور یہ صرف ہمارے نہیں پوری دنیا کے ہیں۔انہوں نے کہاکہ برازیل کے صدر بھی کہہ رہا ہے کہ ہم نے ایک طرف ملک بند کردیا لوگوں کے معاشی حالات بگڑتے جارہے ہیں اور بھوک ننگ آرہی ہے تو اس میں توازن لے کر آرہے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ ہمارے پاس یہ چیلنج ہے، ایک طرف کورونا ہے اور ایک طرف بھوک ہے، ایک بڑی آبادی ہے۔انہوں نے کہا کہ 22 کروڑ لوگوں کو ہم بند نہیں کرسکتے، یہ ناممکن چیز ہے، ہم غریب گھرانوں کو دو تین ہفتے کے بعد کیسے کہہ سکتے ہیں اگر وہ بھوکے ہیں تو بند رہیں اس کے لیے یہ پیکج لے کر آئے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ اگر ہم مکمل لاک ڈاؤن کرتے ہیں تو کیا ہم غریبوں کی بنیادی ضروریات پوری کرسکیں گے؟ قوم فیصلہ کرے کہ اس وائرس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔انہوں نے کہاکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول میں بیٹھ کر ہم مسلسل جائزہ لے رہے ہیں، 36 افراد جاں بحق ہوئے ہیں تو ان کے عمرکے گروپ اور بیماری کی نوعیت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔صحافیوں کو صرف کورونا وائرس سے متعلق سوالات پر توجہ دینے پر زور دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 14 تاریخ کو یہ تعمیراتی شعبہ کھل جائیگا جس کا اعلان کیا ہے تاکہ لوگوں کو روزگار بھی ملے اور توازن قائم کریں۔وزیراعظم نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد ایسا کوئی کام نہیں کرناچاہتاکہ لگے وفاق کوئی چیز زبردستی کررہا ہے۔ٹائیگر فورس کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ٹائیگر فورس محلوں میں جا کر لوگوں کو گھروں میں رہنے کا سمجھائیں گے اور ان کا مقصد لوگوں کو آگاہی فراہم کرنا ہے۔انہوں نے کہاکہ منظم طورپرلوگوں کی امداد کی جائے گی، رضاکار فورس جمع کررہے ہیں اور اب تک 4 لاکھ رضاکار جمع ہوچکے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس وائرس کے خلاف پاکستانیوں کی قوت مدافعت زیادہ ہے یہ سوچ خطرناک ہے، ہمیں ہر قسم کی احتیاط کرنا ہوگا۔ یہ بہت خظرناک وائرس ہے کوئی نہیں کہہ سکتا یہ کتنی تیزی سے پھیلے گا۔