کوئی وجہ نہیں اسمبلیاں مدت پوری نہ کریں)قومی حکومت کا کوئی امکان نہیں ہے،عارف علوی

وزیر اعظم فکر مند ہیں کہ ذخیرہ اندوزی کو ہینڈل کرنے کے لئے کوئی قانون نہیں ہے، ذخیرہ اندوزی کی بھی واضح تعریف نہیں ہے،آٹے اور چینی بحران کی مکمل رپورٹ بھی آجائے گی، کہیں ایسا تو نہیں کہ غریب عوام کا پیسہ شوگر مل مالکان کی جیب میں چلا گیا ہو

عدالت میں ججز کے ریمارکس سے زیادہ ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا کوروناوائرس کے حوالہ سے کیس کا فیصلہ بڑا مناسب سا تھا، اس کے لئے قانون سازی کرنی پڑی گی کیونکہ یہ بڑی انوکھی کیفیت ہے۔ صدر مملکت کا انٹرویو

چینی پر سبسڈی اب تک یہ کیوں دی جاتی رہی اور اگر جائز ہے اور تھی تو اس بات کے اندر اس بات کا امکان تو نہیں کہ جتنی ضرورت تھی اس سے زیادہ دی گئی، کہیں ایسا تو نہیں کہ غریب عوام کا پیسہ شوگر مل مالکان کی جیب میں چلا گیا ہو۔ ڈاکٹر علوی
آئٹم نمبر……67
اسلام آباد (صباح نیوز)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن کے حوالہ سے کوئی اختلاف نہیں تاہم نقطہ نظر مختلف ہے، جو جائز ہے،مساجد کا معاملہ پولیس، سیکورٹی اور امن وامان کا نہیں ہے،وزیر اعظم فکر مند ہیں کہ ذخیرہ اندوزی کو ہینڈل کرنے کے لئے کوئی قانون نہیں ہے، ذخیرہ اندوزی کی بھی واضح تعریف نہیں ہے،آٹے اور چینی بحران کی مکمل رپورٹ بھی آجائے گی، کہیں ایسا تو نہیں کہ غریب عوام کا پیسہ شوگر مل مالکان کی جیب میں چلا گیا ہو،کم از کم ایک بات تو کھلی، اگرکسی چیز کو بند رکھیں تو بدبو بہت ہوتی ہے چاہتا ہوں سب کے ساتھ مشاورت رہے، قومی حکومت کا کوئی امکان نہیں ہے، سیاسی اختلافات پر قومی حکومت نہیں بنتی نہیں تاہم قومی سمت کاتعین ضروری ہے،کوئی وجہ نہیں کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری نہ کریں۔ ان خیالات کا اظہار صدر مملکت نے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں ججز کے ریمارکس سے زیادہ ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا کوروناوائرس کے حوالہ سے کیس کا فیصلہ بڑا مناسب سا تھا، عدالت نے فیصلے میں بڑی اچھی باتیں کہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ کو اس کے لئے قانون سازی کرنی پڑی گی کیونکہ یہ بڑی انوکھی کیفیت ہے، قوم کسی اعتبار سے تیار نہیں تھی کوئی صحت کا نظام تیار نہیں تھا، پاکستان کو تو چھوڑیے امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے صحت کے نظام ناکام ہو گئے، کبھی نہیں سوچا تھا یہ ہو گا اور اس کے لئے تیاری بھی نہیں کی گئی تھی،اس کے لئے قانون کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی انوکھے ماحول کے لئے انوکھے قوانین کی ضرورت ہے۔لاک ڈاؤن پر جو صوبہ جس طرح عملدآمد کر رہا ہے وہ اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق کررہا ہے لہذا ان کو آزادی دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے حوالہ سے وزیر اعظم عمران خان اس قسم کا ایکشن نہیں لینا چاہتے تھے جو سندھ حکومت نے لیا وہ اس سے کچھ کمتر لینا چاہتے تھے اور کچھ جگہوں پر بڑھانا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے دنیا سے بڑی اچھی بات کی کہ قرضے کا معاملہ ہمیں مفلوج کر دے گا تم برداشت کرسکتے ہو مگر یہاں لوگ مریں گے۔انسانی جان تو ایک سی ہے۔ ہم صرف آٹھ ارب ڈالرز دے سکیں گے اور ہماری تم سے تھوڑی سی آبادی کم ہے دنیا کو سوچنا چاہیئے، یہ بروقت اپیل ہے۔مساجد کے حوالہ سے ہم علماء کے ساتھ ایک اتفاق رائے لے کر آئے تھے کیونکہ میں یہ نہیں سمجتھا ہوں کہ یہ معاملہ پولیس، سیکورٹی اور امن وامان کا ہے، مساجد کے معاملہ میں ہم جذباتی لوگ ہیں، دین اور مذہب کے معاملہ میں ہمارا لگاؤ براہ راست اللہ تعالی سے ہے اور اس کا زریعہ مسجد ہے، اس کو دیکھنا پڑے گا کہ رمضان المبارک کے اندر کیا جائے۔ لاک ڈاؤن کے حوالہ سے کوئی اختلاف نہیں تاہم نقطہ نظر مختلف ہے، قومی اتفاق رائے ہے تاہم نقطہ نظر کا اختلاف جائز ہے۔ جو کیفیت اس وقت کراچی کی ہے وہ تفتان کی نہیں ہو سکتی، جو اپروچ تفتان میں لی جانی چاہیئے تھی وہ کراچی میں نہیں ہو سکتی، پنجاب جس طرح سے ہینڈل کر رہا ہے وہ انوکھے اندازسے کررہا ہے، جو لوگ گلگت بلتستان پہنچے انہوں نے اپنے اندازسے بڑے اچھے طریقہ سے ہینڈل کیا وہاں 216 کیسز تھے اور اب صرف67 رہ گئے ہیں تو وہاں تواصل کیسز کم ہو گئے، شاید جی بی واحد علاقہ ہے جہاں علماء، شیعہ، سنی، حکومت اور اپوزیشن سب لوگوں نے مل کر اتفاق رائے سے کام کیا اور بڑی اچھی طرح سے کنٹرول کیا۔پاکستان میں اتفاق رائے زیادہ ہے اور اختلاف رائے کم ہے، کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کا معاملہ ہے، ایک دوسرے نے ووٹ بھی لینے ہیں، اپنی کارکردگی اوردوسرے پر تنقید اس کے باوجود کہ میں ایسا نہیں چاہتا تھا تاہم یہ چل رہا ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ کوروناکے حوالہ سے تمام حکومتیں اچھا کام کررہی ہیں، کیونکہ یہ کوئی توقع ہی نہیں کررہا تھا کہ یہ کیاچیز ہے، کوئی تیاری نہیں تھی، اس کے باوجود کتنا تعاون ہے۔ چینی پر سبسڈی کے حوالہ سے میرا سوال ہے کہ اب تک یہ کیوں دی جاتی رہی اور اگر جائز ہے اور تھی تو اس بات کے اندر اس بات کا امکان تو نہیں کہ جتنی ضرورت تھی اس سے زیادہ دی گئی، کہیں ایسا تو نہیں کہ غریب عوام کا پیسہ شوگر مل مالکان کی جیب میں چلا گیا ہو کیونکہ ارادہ یہ نہیں تھا بلکہ ارادہ یہ تھا کہ اس کا فائدہ کاشتکار کو ملے، دوسرا سوال یہ سبسڈی دینے کا فیصلہ کس نے کیا اور تیسرا سوال یہ ہے کہ ہم نے یہ طے کرنا ہے کہ کیا سبسڈی دینے کی دلیل کیا حقیقی تھی یا دھوکہ دیا گیا اس کی نشاندہی کرنا ہو گی۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی قوم اتنی تراشی جاچکی ہے کہ اللہ تعالی ٰنے جو آزمائشیں رکھیں تھیں ان سے بھی گزر گئی، چاہے وہ افغانستان کی جنگ تھی، چاہے وہ ددہشت گردی تھی، چاہے وہ ہماری اپنی پولارائزیشن تھی، چاہے سیلاب ہو، زلزلہ ہو اور اب چاہے قرنطینہ کا معاملہ ہو، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی قوم بہت ساری آزمائشوں سے گزری ہے اور اللہ تعالیٰ سے میں دعا بھی کرتاہوں اور مجھے امید بھی ہے کہ یہ بڑی نکھر کر نکلے گی انشا ء اللہ۔
#/S