اسلام آباد(صباح نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان  نے کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران  وفاقی و صوبائی رپورٹس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کورونا سے نمٹنے کیلئے وفاق اور صوبوں کو ایک ہفتے میں یکساں پالیسی بنانے کا حکم دیا ہے عدالت نے خبر دار کیا ہے کہ یکساں پالیسی نہ بنائی گئی تو عبوری حکم نامہ جاری کردیں گے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ صوبائی حکومت کا اختیار اسی حد تک ہے جو آئین دیتا ہے، صوبائی حکومتوں نے کاروباری مصروفیات روک دیں، صوبوں کو ایسے کاروبار روکنے کا کوئی اختیار نہیں جو مرکز کو ٹیکس دیتے ہیں، وفاقی معاملات کے حوالے سے شیڈول 4 کو دیکھ لیں، امپورٹ، ایکسپورٹ، لمیٹڈ کمپنیز ،ہائی ویز اور ٹیکس کے معاملات وفاقی ہیں، صوبائی حکومت وفاق کے معاملات پر اثر انداز نہیں ہو سکتی، وفاقی حکومت کے ریونیو کا راستہ صوبائی حکومتیں کیسے بند کرسکتی ہیں؟ صوبائی حکومتیں پیسے مانگ رہی ہیں، اگر وفاق کے پاس فنڈز ہیں تو اسے دینے چاہئیں۔ سوموار کو چیف جسٹس  آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تووفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل،صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز، این ڈی ایم اے، وزارت صحت اور دیگرمتعلقہ محکموں کے حکام بھی عدالت میں پیش ہوئے۔اس موقع پر ریمارکس میں چیف جسٹس  گلزار احمد نے کہا کہ ٹیسٹنگ کٹس اور ای پی پیز پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، ماسک اور دستانوں کے لئے کتنے پیسے چاہئیں ، اگر تھوک میں خریدا جائے تو 2 روپے کا ماسک ملتا ہے، پتہ نہیں یہ چیزیں کیسے خریدی جارہی ہیں، لگتا ہے کہ سارے کام کاغذوں میں ہی ہورہے ہیں۔ جتنی سرکاری رپورٹس آئی ہیں ان میں کچھ بھی نہیں، یہ ادارے کر کیا رہے ہیں، کسی چیز میں شفافیت نہیں، کوویڈ 19 کے اخراجات کا آڈٹ ہوگا تو اصل بات سامنے آئے گی۔حاجی کیمپ قرنطینہ سے متعلق چیف جسٹس کے استفسار پر سیکریٹری صحت نے کہا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ کا  دورہ کیا تو وہ غیر فعال تھا، ایک کمرے میں پارٹیشن لگا کر 4  افراد کورکھا گیا، ضلعی انتظامیہ نے گرلز ہاسٹل میں قرنطینہ سینٹر منتقل کیا، گرلز ہاسٹل میں 48 کمرے ہیں۔  چیف جسٹس پاکستان کے استفسار پر ڈی سی اسلام آباد نے بتایا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز این ڈی ایم اے نے بنایا۔چیف جسٹس نے کہا ریمارکس دیئے کہ پاک چائنہ فرینڈ شپ سینٹر کا حال بھی حاجی کیمپ جیسا ہی ہے، پورے ملک میں حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں، جن کا روزگار گیا ان سے پوچھیں کیسے گزارا کر رہے ہیں، سندھ حکومت کہتی ہے 150 فیکٹریوں کو کام کی اجازت دیں گے، سمجھ نہیں آتی ایک درخواست پر کیا اجازت دی جائے گی، لاکھوں دکانیں ہیں ہر کوئی کام کیلئے الگ الگ درخواست کیسے دے گا؟ ایک دکان کھلوانے والے کو نہ جانے کتنے پیسے دینا پڑتے ہوں گے، اجازت دینے والوں سے پولیس والے تک سب کو ہی کچھ دینا پڑتا ہے، جامع پالیسی بنا کر تمام فیکٹریوں کو کام کی اجازت ملنی چاہیے۔ ایک صوبائی وزیر کہتا ہے کہ وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ کرا دینگے  یعنی صوبائی وزیر کا دماغ بالکل آؤٹ ہے۔ پتہ نہیں دماغ پر کیا چیز چڑھ گئی۔وفاقی سیکرٹری صحت نے بتایا کہ ملک میں روزانہ ایک ہزار کورونا کیسز سامنے آ رہے ہیں، کورونا کیسز مثبت آنے کی شرح 10 فیصد ہے۔دوران سماعت جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ بازاروں میں لوگوں کو ڈنڈوں کے ساتھ ماراجا رہا ہے، حکومت نے مارکیٹس بند کرکے مساجد کھول دیں، کیا مساجد سے کورونا وائرس نہیں پھیلے گا، 90 فیصد مساجد میں ریگولیشنز پرعمل نہیں ہو رہا ، اگر فاصلہ رکھنا ہے تو ہر جگہ رکھنا ہوگا۔عدالت کو بتایا جائے کی یکساں پالیسی کدھر ہے؟بازاروں میں لوگوں کو ڈنڈوں کے ساتھ ماراجا رہا ہے ، صوبائی ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ پنجاب میں 37صنعتیں کھولی گئی ہیں۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایاکہ 37 صنعتیں کھول دیں باقی صنعتوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے ؟ جسٹس قاضی امین نے  پنجاب حکومت کے اقدامات سے متعلق رپورٹ پرایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ پنجاب سے متعلق جو آپ کاغذ پڑھ رہے ہیں حقیقت اس سے مختلف ہے، میں خود پنجاب کا ہوں، مجھے علم ہے وہاں صورتحال کیسی ہے۔پنجاب میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ الارمنگ ہے، صوبے میں کورونا وائرس کی مریضوں کے ساتھ اموات بھی بڑھ رہی ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی حکومت کا اختیار اسی حد تک ہے جو آئین دیتا ہے، صوبائی حکومتوں نے  کاروباری مصروفیات روک دیں، صوبوں کو ایسے کاروبار روکنے کا کوئی اختیار نہیں جو مرکز کو ٹیکس دیتے ہیں، وفاقی معاملات کے حوالے سے شیڈول 4 کو دیکھ لیں، امپورٹ، ایکسپورٹ، لمیٹڈ کمپنیز ،ہائی ویز اور ٹیکس کے معاملات وفاقی ہیں، صوبائی حکومت وفاق کے معاملات پر اثر انداز نہیں ہو سکتی، وفاقی حکومت کے ریونیو کا راستہ صوبائی حکومتیں کیسے بند کرسکتی ہیں؟ صوبائی حکومتیں پیسے مانگ رہی ہیں، اگر وفاق کے پاس فنڈز ہیں تو اسے دینے چاہئیں. چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ چاروں صوبے اور آئی سی ٹی اپنی پالیسی سازی میں مکمل آزادہیں،کام کچھ نہیں کیا لیکن ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ صوبائی حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وفاق سے تصدیق ضروری ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ سندھ حکومت نے لاک ڈاون کا فیصلہ 2014 کے قانون کے تحت کیا،جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ مسافر ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں سفر کرنے کے لیے مال بردار ٹرک میں سفر کرنے پر مجبور ہیں،  سفری پابندیوں کی وجہ سے مسافروں سے جہاز کے ٹکٹ کے برابر کرایہ وصول کی جارہا ہے، صوبائی حکومتیں صرف وہ کام رکوا سکتی ہیں جو ان کے دائرہ اختیار میں آتے ہوں،کیا پنجاب نے مرکز سے ایسی کوئی اجازت لی؟  اگر اجازت نہیں لی گئی تو صوبوں کے ایسے تمام اقدامات غیر آئینی ہیں.جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ  حکومت ہر کام منصوبہ بندی کے ساتھ کرتی ہے لیکن اس معاملے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی، کورونا کی روک تھام سے متعلق اقدامات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہو رہی ہے، ہمارا گزشتہ حکم شفافیت سے متعلق تھا اس کو نظر انداز کیا گیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سفید پوش افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ  اٹارنی جنرل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو باہمی تعاون کی ضرورت ہے، شفافیت میں پہلی چیز یکسانیت ہے،  ایگزیکٹو اس وقت مکمل مفلوج ہوچکا ہے، ذاتی عناد کی وجہ سے وفاق کا نقصان ہو رہا ہے،کون کیا زبان استعمال کر رہا ہے سب کچھ سامنے ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ یکساں پالیسی کیلئے ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں، اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں،  معاملہ اس حد تک نہ جائے کہ عدالت کو مداخلت کرنی پڑے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ آج کل ٹی وی دیکھیں تو لگتا ہے ملک میں سیاسی جنگ چل رہی ہے، بہتر ہوگا کہ عدالت سیاسی معاملات سیاستدانوں کو ہی حل کرنے دے، وفاق کے اختیارات پر بات کرنے کیلئے پارلیمنٹ بہترین فورم ہے،  اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ کسی سیاسی معاملے میں نہیں پڑینگے، جسٹس قاضی محمد امین نے سوال کیا کہ کیا شہریوں کی اموات پر سوال پوچھنا ہماری آئینی ذمہ داری نہیں؟  باہر کون کیا کہتا ہے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ کرونا وائرس سے وقت اپنی پیک پر ہے،جسٹس قاضی امین نے کہاکہ کرونا ہاتھوں سے نکل رہا ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ کرونا سے متعلقہ سہولیات کی کوئی کمی نہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ جس قیمت پر عوام کو سہولیات مل رہی ہیں وہ بھی دیکھیں، سفید ہوش افراد راشن کیلئے لائن میں نہیں لگتے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر لگتا ہے کہ تمام ایگزیکٹیو ناکام ہوگئے، کسی کو احساس نہیں کہ حکومتیں ایک ساتھ بیٹھیں اور بات کریں، وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ غرور اور انا ہے، ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کی ذاتی عناد ہے، وفاق میں بیٹھے لوگوں کا رویہ متکبرانہ نظر آ رہا ہے، اس  سے وفاق کو نقصان پہنچ رہا ہے، صوبوں کے درمیان تعاون کا آغاز ہونا چاہیے، ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں یکساں پالیسی بنائی جائے، یکساں پالیسی نہ بنی تو عبوری حکم جاری کریں گے.جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہہم آہنگی کے فقدان کی وجہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کا ذاتی عناد ہے، حکومت ہر کام منصوبہ بندی کے ساتھ کرتی ہے لیکن اس معاملے  میں کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی ،کوروناکی روک تھام سے متعلق اقدامات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہو رہی ہے۔ہمارا گزشتہ حکم شفافیت سے متعلق تھا اس کو نظر انداز کیا گیا، ایک اچھے اور وزینری لیڈر شپ کا فقدان ہے۔وفاق میں بیٹھے لوگوں کا رویہ متکبرانہ نظر آرہا ہے۔اس رویے سے وفاق کو نقصان پہنچ رہا ہے۔کیا وفاق میں بیٹھے لوگوں کو ایسی زبان استعمال کرنی چاہیے؟وفاق اور صوبائی حکومتوں کی آپس میں ہم آہنگی نہیں ہے۔اگر کوئی پالیسی ہے تو دکھائیں۔بین الصوبائی سروس شروع ہونی چاہیے ۔کراچی سے اسلام اباد لوگ 25 ہزار کرایہ دے کر پہنچ رہے ہیں۔ ہوائی سفر سے زیادہ مہنگا سفر پڑ رہا ہے۔ہم سیلاب،زلزلے سے نکل آئے، اس مسئلے سے بھی نکل آئیں گے۔ لیکن مسئلہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کے متکبرانہ رویہ ہے۔انااور ضد سے حکومتی معاملات نہیں چلتے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ صدر مملکت اور وزیراعظم کے ارادے نیک ہوں گے، لیکن کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا،جن شعبہ جات کو کھولا گیا ان کا عوام کو کیا فائدہ ہوا؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چھوٹی تجارتی سرگرمیوں کو بھی کھولنے پر غور کیا جائے گا۔قومی سلامتی کے 9 مئی کے اجلاس میں حتمی فیصلے ہوں گے، ریلوے کو کھولنے کے شیڈول پر بھی غور ہورہا ہے۔یف جسٹس نے کہاکہ پی آئی اے ہزاروں ڈالر ٹکٹ کا کرایہ لیتا ہے،ایک سیٹ پی آئی اے کے جہاز میں سوشل ڈسٹنسنگ کے لیے خالی نہیں چھوڑی جاتی،چیف جسٹس کا وفاقی و صوبائی حکومتوں کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہنا تھا کہ کام کرنا ہے تو نیک نیتی اور شفافیت سے کریں،  پولیس کو شہریوں سے بدتمیزی کی اجازت نہ دی جائے،لاہور قرنطینہ سے پیسے لیے بفیر کسی کو جانے نہیں دیا جاتا،جو ہسپتال جاتا ہے وہ واپس نہیں آ سکتا، ہسپتال سے لاش وصول کرنے کیلئے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں، چیف جسٹس  کا کہنا تھا کہ کرپشن کس حد تک جڑوں میں بیٹھ چکی ہے، نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کیا کر رہے ہیں؟  احتساب کا ایک اور ادارہ بنایا تو کرپشن کی رفتار مزید تیز ہوجائے گی،راشی لوگ شرافت کے لبادے میں نہ جانے کیا کچھ کر رہے ہیں،  لوگوں میں انسانیت ختم ہوگئی صرف گوشت کا ٹکڑا رہ گیا، چیف جسٹس  نے مزید کہاکہ کیا گندم غائب کرنے والے انسان کہلائے جا سکتے ہیں؟ ابھی کسی کرپٹ بندے کو عدالت بلائیں دیکھیے گا کیسے جھوٹ بولے گا، جو زکوا ةاور صدقے کا پیسہ کھا جائیں ان سے کیا توقع رکھیں گے، چیف جسٹس  نے کہاکہ آڈیٹر جنرل کے مطابق زکواة اور بیت المال کا پیسہ کرپشن کی نظر ہوگیا، اٹارنی جنرل نے کہاکہ بیت المال کے فنڈ میں کرپشن یا غبن نہیں ہوئی، آڈٹ حکام نے 54 اعتراضات عائد کیے تھے 48 کے جواب آ گئے ہیں  جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو ریکوری ہوئی کیا یہ کرپشن نہیں تھی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مریض کیلئے مختص جو پیسے استعمال نہیں ہوئے وہ ریکوری میں ڈالے گئے،چیف جسٹس نے کہاکہ صوبوں کو چاہیے کے زکوا ةتقسیم میں شفافیت کے لیے نظام بنائیں،زکوة ، صدقہ صاف شفاف انداز میں نہ ملے تو کیا ہوگا،جسٹس قاضی محمد امین نے کہاکہ بیت المال اور زکواة کا نظام موجود صورتحال میں ناکام ہے،ملک اس وقت خیرات پر چل رہا ہے ،لوگ ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر صدقات اور زکوة کا پیسہ کھا جائیں گے تو پیچھے کیا رہ جائے گا، ہمارے ملک کا ایک حصہ چلایا گیا، ملک کے  باقی حصوں میں آگ لگی ہے، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ زکواة کے پیسے سے جہاز کے ٹکٹ خریدے جاتے ہیں، زکواة کے پیسے سے بڑی بڑی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے خود رائے دینے کی تکلیف نہیں کی،نظریاتی کونسل کی رائے پر چیئرمین کے دستخط نہیں ہیں، ماتحت عملے کی جانب سے رائے بھجوا دی گئی،اس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ نظریاتی کونسل کی رائے پر چیئرمین کے دستخط کروا دیتے ہیں، جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ مولانا تقی عثمانی کی رائے میں زکواة کے پیسے پر 12.5 فیصد اخراجات ہوسکتے ہیں،جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ زکواة کی تقسیم کے لیے پھر لوکل سطح پر کمیٹیوں کی کیا ضرورت ہے؟زکواة کا پیسہ بنک کے ذریعے دیا جاسکتا ہے،خیبر پختونخوا کے حوالے سے معاملات پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں صورتحال اچھی نہیں، وہاں بھی اموات میں اضافہ ہورہا ہے، ، جسٹس سجادعلی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا خیبرپختونخوا میں میڈیکل کلینک کھل گئے ہیں ؟ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں تقریبا تمام علاقے کھول دئیے گئے ، جسٹس سجاد کا کہنا تھاکہ خیبرپختونخوا میں پولیس کی جانب سے میڈیکل شعبہ کے لوگوں پر تشدد کیا گیا،کیا خیبرپختونخوا پولیس بے مہار ہے، ڈاکٹر ہوٹلوں میں جاکر مریضوں کا معائنہ کررہے ہیں، جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ جو کلینک ایس او پی پر عمل نہیں کریں گے وہ نہیں کھلیں گے،کنسلٹنٹ کے ساتھ پولیس نے بدسلوکی کی، ڈاکٹر کنسلٹنٹ بننے کے لیے 20 سال لگتے ہیں،پولیس کو لائسنس دے دیا گیا جس کی مرضی گردن پکڑ لیں،خیبرپختونخوا واحد صوبہ ہے جہاں ڈاکٹرز پر تشدد کر کے لہو لہان کیا گیا،صوبے میںسیکریٹری صحت ڈاکٹر نہیں ہیں،اسی وجہ سے خیبرپختونخوا میں شعبہ صحت کا یہ حال ہے۔ عدالت نے  کورونا وائرس سے متعلق اقدامات پر مبنی ملک بھر کیلئے یکساں پالیسی تیار کرنے کیلئے مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔