اسلام آباد(صباح نیوز)

ایک آزادانہ تحقیقات کرنے والے ادارے سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر(سی آر ای اے)نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تھر میں موجود کوئلے کے پاور پلانٹ کی 30سالہ آپریشنل مدت کے دوران 29ہزار افراد آلودہ ہوا سے ہلاک ہوسکتے ہیں۔قبل ازیں عالمی ادارہ صحت نے کہا تھا   کہ تھر کے صحرا میں موجود کوئلے کے پاور پلانٹس حفاظتی حدود سے تجاوز کرنے والی زہریلی گیسوں سے ایک لاکھ افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر(سی آر ای اے) کی جانب سے آن لائن جاری کردہ پریزینٹیشن میں   ادارے کو موجودہ رجحانات، صحت پر پڑنے والے اثرات کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی پر آزادانہ تحقیقات کرنے والا ادارہ کہا گیا۔خیال رہے کہ 6 ہزار میگا واٹ سے زائد کے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر ملک میں ترقی کے مختلف مراحل میں ہیں جس میں سے 3 ہزار 700 میگا واٹ کے پلانٹ صحرائے تھر میں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 660 میگا واٹ کی صلاحیت والا ایک پلانٹ فعال ہوسکتا ہے اور مجوزہ پلانٹس جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ مرکری (پارے)اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج والے مقامات بن جائیں گے۔ہوا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ (SO2)کی خطرناک مقدار سے نہ صرف ایک لاکھ افراد متاثر اور آلودگی کے باعث 29 ہزار اموات کے علاوہ یہ پاور پلانٹس صحت سے متعلق پیچیدگیوں کا موجب بنیں گے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ صحت پر پڑنے والے دیگر اثرات میں دمے کے باعث 40 ہزار مرتبہ ہنگامی طبی امداد کے لیے جانا، بچوں میں دمے کے 19 ہزار 900 کیسز، 32 ہزار قبل از وقت ولادتیں، 2 کروڑ دن کام سے غیر حاضری(بیماری کی چھٹی)اور 57ہزار سال تک پھیپھڑوں اور سانس کی تکالیف، ذیابیطس اور دماغ کی رگ پھٹ جانے جیسے مسائل کے ساتھ زندگی گزارنا شامل ہے۔اس کے علاوہ یہ پاور پلانٹس سالانہ 1400 کلو گرام پارے کا اخراج کریں گے جس کا پانچواں حصہ خطے کے زمینی ماحول میں جمع ہوجائے گا۔اس میں زیادہ تر ذخیرہ زمینی فصلوں میں ہوگی اور غذائی سلسلوں میں پارے کی مقدار میں اضافہ ہوجائے گا۔واضح رہے کہ گزشتہ 3 سال کے عرصے کے دوران پاکستان میں 8 کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر لگائے گئے جبکہ ایک چھوٹا بجلی گھر 1995 سے فعال ہے۔محقق نے فضائی معیار کو سنجیدہ لینے کے حوالے سے صوبہ سندھ کے پہلے سے ناقص ریکارڈ کی بھی نشاندہی کی کہ جہاں بڑی تعداد میں کوئلے سے چلنے والی صلاحیتوں کا بڑا حصہ قائم ہونے والا ہے۔