سانحہ تیزگام’اسلام آباد ہائی کورٹ نے شفاف تحقیقات کیلئے درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا

سانحہ تیز گا م کی وزارت داخلہ، پولیس اور ریلوے انکوائری کر رہی ہے،عدالت

وزیر ریلوے کا حادثہ پر جو کنڈکٹ رہا اس پر انہیں استعفیٰ دینا چاہئے ، وکیل درخواست گزار

کنڈکٹ پر استعفیٰ دینا پڑے تو اس وقت سارے وزراء کو استعفیٰ دینا پڑے گا،عدالت

 وزیر ریلوے نے بیان دیا سلنڈر دھماکہ ہوا اور اس میں جاں بحق  افراد خود دھماکہ کے ذمہ دار ہیں،وکیل جیورسٹ فائونڈیشن

پاکستان میں اخلاقیات ابھی اس سطح تک نہیں پہنچیں کہ کسی غلطی پر کوئی استعفیٰ دیدے، جسٹس محسن اختر کیانی

موٹروے زیادتی کیس میں بھی ساری تحقیقات میڈیا پر کی گئیں ، پورا پاکستان تفتیشی افسر بنا ہوا ہے ،عدالت کے ریمارکس

 جاں بحق افراد کے ڈی این اے میچ کر گئے ان کے لواحقین کو معاوضہ کی ادائیگی کر دی گئی ،وکیل ریلوے

اسلام آباد (ویب ڈیسک )اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے فر یقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سانحہ تیز گام  کی تحقیقا ت کر انے کے حوالہ سے دائر درخواست پر  فیصلہ محفوظ کر لیا۔ عدالت نے کہاکہ سانحہ تیز گا م کی وزارت داخلہ، پولیس اور ریلوے انکوائری کر رہی ہے۔ سانحہ تیز گام ایکسپریس کی تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر ریلوے کا حادثہ پر جو کنڈکٹ رہا اس پر انہیں استعفیٰ دینا چاہئے ۔ اس  پر عدالت کا کہناتھا کہ اگر کنڈکٹ پر استعفیٰ دینا پڑے تو اس وقت سارے وزراء کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ استعفیٰ اخلاقی بنیادوں پر دیا جاتا ہے اور پاکستان میں اخلاقیات ابھی اس سطح تک نہیں پہنچیں کہ کسی غلطی پر کوئی استعفیٰ دے دے۔ جیورسٹ فائونڈیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر ریلوے نے بیان دیا کہ سلنڈر کا دھماکہ ہوا اور اس میں ہلاک ہونے والے افراد خود دھماکہ کے ذمہ دار ہیں۔درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر ریلوے نے اپنا بیان درست نہیں دیا لہذا انہیں استعفیٰ دینا چاہئے۔اس پر  جسٹس محسن اختر کیانی  نے ریمارکس دیئے کہ اگر اس طرح وزراء نے استعفے دینا شروع کر دیئے تو سارے وزراء کو استعفے دینا پڑیں گے۔ جسٹس محسن اختر کیانی  کا کہنا تھا کہ استعفیٰ اخلاقیات کی بنیاد پر دیا جاتا ہے اور پاکستان میں اخلاقیات اس پیمانے پر نہیں پہنچیں کہ  کسی غلطی پر کوئی استعفیٰ دے دے ۔ عدالت  نے کہا کہ موٹروے زیادتی کیس میں بھی ساری تحقیقات میڈیا پر کی گئی ہیں، موٹروے واقعہ پر  سارا ٹرائل میڈیا پر چل رہا ہے  اور پورا پاکستان تفتیشی افسر بنا ہوا ہے لہذا جو معاملات تفتیش  کے ہیں وہ تحقیقات کی حد تک ہونے چاہیںاور متعلقہ اداروں کو ہی کرنے چاہیں۔ اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ آٹھ ہلاک شدگان ایسے ہیں جن کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی، ان افراد کی ڈی این اے رپورٹس ابھی تک میچ نہیں ہوئیںاور ان کے لواحقین کو معاوضہ دینے کا مسئلہ بھی حل نہیں ہوا۔ جبکہ ریلوے وکیل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ جن جاں بحق افراد کے ڈی این اے میچ کر گئے ان کے لواحقین کو 15، 15 لاکھ معاوضہ کی ادائیگی کر دی گئی ہے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو آئندہ ہفتے سنائے جانے کا امکان ہے۔