کوئی غلط بات ہی نہیں کی ، معذرت کس بات کی کروں،ایاز صادق

 ہم سب محب وطن پاکستانی ہیں نہ مجھے حق ہے کہ میں کسی اور کو غدار کہوں اور نہ کسی اور کو حق ہے کہ وہ مجھے غدار کہے

آج جو بینر اور پوسٹر لاہور میں لگے وہ اس مئوقف کی خدمت نہیں جو پاکستان کا مئوقف ہے،فضل الرحمان کے اعزار میں دیئے گئے ناشتے  کے بعد میڈیا سے گفتگو

ہمارے ادارے اتنے مقدس ہیں کہ ان کے افراد بھی ان سے زیادہ مقدس ہیں کہ وہ تنقید سے بالاتر ہیں، ہم شاید اس اصول کو تسلیم نہیں کرتے

ہم توہین آمیز رویے کے خلاف ہیں، چاہے وہ عدالت  ہو، جج صاحبان  میں ہو یا جنرلز کے بارے   ہو، لیکن ہم اپنی توہین بھی برداشت کرنے کیلئے  تیار نہیں،مولانا فضل الرحمان

لاہور (ویب ڈیسک )پاکستان مسلم لیگ (ن)کے نائب صدر اورسابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق نے کہا ہے کہ میں نے وضاحت دے دی ہے ، میں نے کوئی غلط بات ہی نہیں کی ، معذرت کس بات کی کروں۔ ہمارے معاشرے میں ہر طرح کی سوچ ہے اور ہر طرح کی بات کرنے والے ہیں مگر ہم سب محب وطن پاکستانی ہیں نہ مجھے حق ہے کہ میں کسی اور کو غدار کہوں اور نہ کسی اور کو حق ہے کہ وہ مجھے غدار کہے۔ہندوستان جو چاہتا ہے وہ کبھی بھی اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ہماری سیاسی سوچ مختلف ہو سکتی ہے مگر جہاں پاکستان کا مئوقف آتا ہے اور پاکستان کی بات آتی ہے تو پوری پاکستانی قوم یکجا ہے اور بھارت کو منہ توڑ جواب جیسے ہمیشہ دیا ہے ویسے ہی دیا جائے گا۔جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف)کے امیر اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر  مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ قیامت کی علامت ہے کہ آج مسلم لیگی غدار ٹھہرے ہیں، ہمارا واضح مئوقف ہے کہ25جولائی2018کودھاندلی ہوئی ہے ، ہم اس حکومت کے جواز کو تسلیم نہیں کرتے اور ہم اپنے مئوقف پر قائم ہیں۔غداری کے تعارف کے لئے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو سامنے لایاجائے پھر پتہ چل جائے گا۔ پارلیمنٹ سپریم ہے اور پارلیمنٹ میں کہے الفاظ باہر چیلنج نہیں ہو سکتے۔ ان خیالات کااظہار سردار ایاز صادق نے مولانا فضل الرحمان کے اعزار میں دیئے گئے ناشتے  کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ن)پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ خان، سابق وفاقی وزیر برائے ریلوے اور رکن قومی اسمبلی خواجہ محمد سعد رفیق، قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے پارلیمانی لیڈر مولانا اسعد محمود اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ میں ایک وضاحت کردوں کہ اس ملاقات کا میری قومی اسمبلی کی تقریرسے کوئی تعلق نہیں یہ ملاقات 10روز قبل سے طے تھی اور اسی کے تسلسل میں مولانا فضل الرحمان تشریف لائے ہیں۔میری بات سے اختلاف ہو سکتا ہے اور لوگوں کو ہوا ہو مگر جس سیاسی بات کو جو رنگ دینے کی کوشش کی گئی اس سے پاکستان کے بیانیہ کو فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس سلیکٹڈ حکومت نے ہندوستان میں جو بیانیہ تخلیق کی جو ناکام کوشش کی جار رہی تھی اس کو تقویت دینے کی کوشش کی ۔ ہمیں اس حکومت سے شدید تحفظات ہیں مگر وہ سیاسی اختلافات ہیں چاہے وہ   کشمیر کے حوالہ سے ہو یا ان کی خارجہ پالیسی کی  ناکامی کی صورت میں ہو، انہوں نے جو میرے بیان سے افواج پاکستان کو نتھی کرنے کی کوشش کی ، یہ کوئی پاکستان کی خدمت نہیں تھی ، میرا بیان دیکھا جاسکتا ہے اور سنا جاسکتا ہے اوراس میں میں نے اس حکومت کے بارے میں گفتگو کی تھی جس کو غلط انداز میں بھارتی میڈیا کی حکمت عملی کو اپناتے ہوئے یہاں حکومتی لوگوں نے مس ریڈ کیا، جو کہ سراسر پاکستان کے خلاف ایک سازش ہے بلکہ یہ پاکستان کی خدمت نہ ہوئی۔ میںاس نالائق حکومت کے بارے میں یہ ضرورکہنا چاہوں گا کہ آپ نے جو لڑائی لڑنی ہے لڑیں ،جبکہ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے سردار ایاز صادق کی جانب سے دعوت دینے پر شکریہ ادا کیا اور کہا سردار ایاز صادق نے جو گفتگو کی ہے وہ انتہائی ذمہ دارانہ اور سنجیدہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں اختلافات کی حدود ہونی چاہئیں، ہم اختلاف رائے کا حق رکھتے ہیں اور اختلاف رائے اصولوں پر کرتے ہیں ، کرتے چلے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے لیکن کسی کو یہ حق نہیں دے سکتے کہ ان سے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بھی لیتے رہیں، ہمیں احتیاط کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج وہی دن ہے جب میں لاہور سے اسلام آباد کی طر آزادی مارچ کے ساتھ گزررہا تھا اور آج بھی میں یہ دن لاہور کے میڈیا کے ساتھ منا رہا ہوں اور یہاں سے اسلام آباد کی طرف چلوں گا۔ تنقید سے کوئی بالاتر نہیں، ہمار ے ملک میں رسول اللہ ۖ کی توہین ہو جاتی ہے ، پھر ملزمان کو عزت وآبرو کے ساتھ باہر بھیج دیا جاتا ہے اور انہیں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ، ہمارے ملک میں صحابہ کرام کی توہین ہوتی ہے ، پھر انہی لوگوں کو ملک سے عزت وآبرو کے ساتھ بھیجنے کے انتظامات کردیئے جاتے ہیں، لیکن  ہمارے ادارے اتنے مقدس ہیں کہ ان کے افراد بھی ان سے زیادہ مقدس ہیں کہ وہ تنقید سے بالاتر ہیں، ہم شاید اس اصول کو تسلیم نہیں کرتے،ہم توہین آمیز رویے کے خلاف ہیں، چاہے وہ عدالت کے بارے میں ہو، جج صاحبان کے بارے میں ہو یا جنرلز کے بارے میں ہو، لیکن ہم اپنی توہین بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس قسم کی صورتحال جو پاکستان میں بنائی گئی ہے ،