پاکستان میں وفاقیت اور پارلیمانی جمہوریت کے تصورات ہر گزرتے دن کے ساتھ انحطاط کا شکار ہیں، موجودہ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کو تبدیل کرکے ایک نیم صدارتی نظام ملک پر مسلط کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، موجودہ داخلی اور بیرونی حالات میں ملک ایسے کسی تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا، سینیٹر رضا ربانی کا ڈی آر آئی کے زیر اہتمام پاکستان میں وفاقی نظام کو فعال بنانے کے حوالے سے کووڈ19 کی صورتحال میں حکومتی اقدامات سے حاصل ہونے والے نتائج کے موضوع پر منعقدہ قومی کانفرنس سے خطاب

کوئٹہ میں بجلی کا تار ٹوٹ جائے تو ہفتوں تک اس کی مرمت نہیں ہوتی لیکن بلوچستان سے گیس لے جانے والی پائپ لائن کو کوئی نقصان پہنچے تو اسے چند گھنٹوں میں ٹھیک کردیا جاتا ہے، یہ ناانصافیاں ختم کی جائیں، سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی

اٹھارویں ترمیم کوئی آسمانی صحیفہ نہیں، اس کی منظوری جلد بازی میں دی گئی اور اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے، قومی مالیاتی کمیشن میں وفاقی حکومت کے حصہ میں اضافہ کی ضرورت ہے،   ریاض فتیانہ

اسلام آباد ( ویب نیوز )

سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں وفاقیت اور پارلیمانی جمہوریت کے تصورات ہر گزرتے دن کے ساتھ انحطاط کا شکار ہیں، موجودہ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کو تبدیل کرکے ایک نیم صدارتی نظام ملک پر مسلط کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، موجودہ داخلی اور بیرونی حالات میں ملک ایسے کسی تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز  پاکستان میں وفاقی نظام کو فعال بنانے کے حوالے سے کووڈ 19 کی صورتحال میں حکومتی اقدامات سے حاصل ہونے والے نتائج کے موضوع پر منعقدہ قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس کا انعقاد پاکستان ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشنل نے برطانوی حکومت کے بیرون ملک اور دولت مشترکہ میں ترقیاتی امور سے متعلق محکمہ (ایف سی ڈی او) کے تعاون سے کیا تھا۔ کانفرنس میں وفاقی دارالحکومت اور چاروں صوبوں سے  منتخب نمائندوں، قانون اور گورننس کے ماہرین نے شرکت کی۔ سینیٹر رضاربانی نے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ موجودہ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کو تبدیل کرکے ایک نیم صدارتی نظام ملک پر مسلط کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ داخلی اور بیرونی حالات میں ملک ایسے کسی تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر جیسے نئے ماورائے آئین اداروں کی تشکیل کے بجائے مشترکہ مفادات کونسل کے تحت وفاقی رابطہ کاری کے موجودہ نظام کو مستحکم بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل پاکستان کے جمہوری نظام کا اہم ستون ہے تاہم اس اہم ادارے کا اجلاس باقاعدگی کے ساتھ منعقد نہیں کیا جا رہا اگرچہ آئین یہ تقاضا کرتا ہے کہ 90 دنوں کے اندر اس کونسل کا کم از کم ایک اجلاس لازم ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی لیجسلیٹو لسٹ کے حصہ دوئم میں موجود تمام امور کے حوالے سے فیصلہ کرنے کا اختیار مشترکہ مفادات کونسل کو ہے تاہم وفاقی کابینہ یہ فیصلے خود کرکے آئین سے انحراف کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹھار ویں آئینی ترمیم نقطہ آغاز تھا اور

ابھی مزید اختیارات صوبائی اکائیوں کو منتقل ہونے ہیں۔ اس موقع پر رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے کہا کہ اٹھارویں  ترمیم کوئی آسمانی صحیفہ نہیں۔ اس کی منظوری جلد بازی میں دی گئی اور اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ریاض فتیانہ نے قومی مالیاتی کمیشن میں وفاقی حکومت کے حصہ میں اضافہ کا بھی مطالبہ کیا۔ سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ اپنے پڑوسی ممالک ایران اور چین کے مقابلے میں پاکستان ایک نوخیز ملک ہے اور یہاں ترقی کے بے شمار مواقع موجود ہیں لیکن ان سے بھرپور استفادہ کی خاطر ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے قرار دیا کہ ملک کی خوشحالی کی ضمانت آئین پر عملدرآمد اور عوام کو حقوق دینے میں ہے۔ سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے بلوچستان کی محرومیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ میں بجلی کا تار ٹوٹ جائے تو ہفتوں تک اس کی مرمت نہیں ہوتی لیکن بلوچستان سے گیس لے جانے والی پائپ لائن کو کوئی نقصان پہنچے تو اسے چند گھنٹوں میں ٹھیک کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ ناانصافیاں ختم کی جائیں۔ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری، بیرسٹر پیر مجیب الحق،  سندھ اسمبلی میں قانون، پارلیمانی امور اور انسانی حقوق سے متعلق کمیٹی کے چیئرمین ثنا اللہ بلوچ، رکن بلوچستان اسمبلی آسیہ خٹک، رکن  صوبائی اسمبلی خیبرپختونخوا  محمد حسین، ماہر قانون ظفر اللہ خان، محسن عباس سید، ماہر گورننس نوید عزیز اور عمر مختار، تبادلاب کے مشرف زیدی، ڈی آر آئی کے جاوید ملک، یو این ڈی پی کی رفعت یاسمین، نادیہ طارق علی اور ڈی آر آئی کے قریش خٹک نے بھی اس موقع پر اظہار خیال کیا۔