قومی اسمبلی نے اپوزیشن کی مخالفت و احتجاج کے باوجود وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کرلیا
بجٹ کی منظوری کے دوران اپوزیشن کی تمام تحاریک کو مسترد کردیا گیا
ووٹنگ کے دوران حکومتی اراکین کی بڑی تعداد نے ڈیسک بجائے اور وزیراعظم کے حق میں نعرے بھی لگائے
بجٹ ووٹنگ کے دوران اپوزیشن اراکین نے پلے کارڈز اٹھا کر احتجاج کیا
اجلاس میں مولانا اسد محمود اور علی امین گنڈا پور کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ
قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کی صبح 11 بجے تک ملتوی
اسلام آباد(صباح نیوز) قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ کثرت رائے منظور کرلیا گیا ،اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے بھی شرکت کی۔اس سے قبل حکومت نے فنانس بل کی شق نمبر کی منظوری میں اپوزیشن کو شکست دی تھی، شق 9 کی حمایت میں 160 اور اس کی مخالفت میں 119 ووٹس دیے گئے تھے۔جس کے بعد اپوزیشن نے شق وار ووٹنگ میں ہار کے باعث حتمی منظوری کے لیے ووٹنگ پر زور نہیں دیا۔فنانس بل کی ترامیم اور شق وار ووٹنگ سے قبل وزیراعظم عمران خان اجلاس میں شریک ہوئے، ووٹنگ کے دوران حکومتی اراکین کی بڑی تعداد نے ڈیسک بجائے اور وزیراعظم کے حق میں نعرے بھی لگائے۔قومی اسمبلی میں فنانس بل کی منظوری کے بعد وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘ پچھلے کئی دن سے اپوزیشن کے کیے جانے والے بلند دعووں،کچھ میڈیا کے سنسنی خیز تجزیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ برس کی 29 ووٹ کی اکثریت کے مقابلے میں اس سال حکومت کاکثریت بڑھ کر 41 ہو گئی۔اسد عمر نے پاکستان تحریک انصاف کے تمام ساتھیوں اور خصوصی طور پر تحریک انصاف کے ورکرز کو بھی مبارکباد دی، بجٹ کی منظوری کے دوران اپوزیشن کی تمام تحاریک کو مسترد کردیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی کوئی تجویز منظور نہ ہوسکی۔ بجٹ ووٹنگ کے دوران اپوزیشن اراکین نے پلے کارڈز اٹھا کر احتجاج کیا۔ ۔ اپوزیشن جماعتوں کے تمام ارکان بھی ایوان میں موجود تھے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپوزیشن کو ووٹ دیا۔ بی این پی کے سردار اختر مینگل ایوان میں موجود نہیں تھے۔ بی این پی کے آغا حسن بلوچ اور حاجی ہاشم نے اپوزیشن کو ووٹ دیا۔قومی اسمبلی سے بجٹ منظورہونے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائت ٹوئٹر پر وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے دعوی کیا ہے کہ پچھلے سال کے بجٹ کی 29 ووٹ کی اکثریت اس سال بڑھ کر 41 ہو گئی۔ بجٹ کی منظوری کے بعد اسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا۔قومی اسمبلی کے بعد بجٹ کی منظوری سینیٹ سے بھی لی جائے گی جس کے بعد صدر مملکت اس پر دستخط کریں گے۔حکومت نے 12 جون کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ پیش کیا تھا جس کا حجم 71 کھرب 37 ارب روپے ہے۔ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے۔ بجٹ میں حکومتی آمدنی کا تخمینہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو ((ایف بی آر) کی جانب سے محصولات کی صورت میں 4963 ارب روپے اور نان ٹیکس آمدنی کی مد میں 1610 ارب روپے رکھا گیا ہے جب کہ 3437 ارب روپے کا خسارہ ہے،سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے بھی شرکت کی۔قبل ازیں اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبے پر کہا تھا کہ عمران خان کو عوام کا اعتماد حاصل ہے وہ استعفی نہیں دیں گے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں خواجہ آصف کو یقین دلاتا ہوں کہ کورونا کا شکار کسی رکن کو ایوان میں آنے کی اجازت نہیں دی نا ہم اتنے غیر ذمہ دار ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں کوئی مایوسی نہیں ہے یہ ایک سالانہ فنانس بل ہے جو ہر سال پیش کیا جاتاہے اور ان غیر معمولی حالات میں جس طرح ایوان چلایا گیا اور جن افراد نے اس کی سربراہی کی، مختلف جماعتوں کی جانب سے مختص کردہ وقت سے کہیں زیادہ تجاوز کرتے ہوئے اپوزیشن میں سے جس رکن نے بات کرنا چاہی انہیں موقع دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ یہ ساری کارروائی بہت اچھے طریقے سے آگے بڑھی ہے اور میں کورونا کا شکار کسی رکن کو ایوان میں بلانے کی تردید کرتا ہوں۔وزیر خارجہ نے اپوزیشن سے کہا کہ ‘کہا جاتا تھا کہ ان کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی، آج دیکھ لیں عمران خان کا ایک ایک ٹائیگر یہاں موجود ہے’۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سب عمران خان اور اس کے نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں، حکومتوں کی پرواہ نہیں نظریے کا دفاع کریں گے، سودے بازی نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ آج پوری قوم سن لے کہ عمران خان ایک مقصد کے لیے آیا ہے، انہوں نے کہا کہ میں اپنی اتحادی جماعتوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ سو جتن کرلیے گئے لیکن وہ چٹان کی طرح اپنی جگہ قائم ہیں اور رہیں گے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سودا کرنے نہیں آئے، سوداگر نہیں ہیں نظریے کا سودا نہیں کریں گے۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اور آج ایک پارلیمانی رکن نے کہا کہ وزیراعظم استعفی دے دیں، وزیراعظم استعفی کیوں دیں؟ عمران خان کو ایوان کا اعتماد حاصل ہے، پاکستانی عوام نے انہیں مینڈیٹ دیا ہے وہ استعفی نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ بھی کہا گیا کہ نوٹس لینا بند کردیں یہ کرپشن کریں، منی لانڈرنگ کریں اور ہم نوٹس نا لیں، عمران خان تو آئے ہی نوٹس لینے کے لیے ہیں۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے جب بھی مثبت بات کی ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا لیکن آج پہلی مرتبہ دیکھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے اراکین پاکستان مسلم لیگ (ن)کے دوستوں کو معافی مانگنے کا کہہ رہے ہیں اور وہ ڈیسک بجارہے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بجٹ پر بحث ہوچکی مزید بحث کی گنجائش نہیں فنانس بل پیش ہوچکا ہے اس پر ووٹنگ کروائیں۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے پاس اکثریت ہے تو وہ اس فنانس بل کو مسترد کردیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔وزیر خارجہ سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن خواجہ آصف نے کہا تھا کہ میں حکومتی اراکین سے یہ یقین دہانی چاہوں گا کہ آج (29 جون) ایوان میں کورونا کا شکار کوئی رکن موجود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ حکومتی اراکین کورونا کا شکار اراکین کو اسمبلی میں لائے ہیں، انہیں مجبور کیا گیا ہے کہ وہ ووٹنگ کے وقت یہاں موجود ہوں۔خواجہ آصف نے کہا کہ یہ میرے یا 342 افراد کے تحفظ کی بات نہیں، آج پورا پاکستان بجٹ اجلاس دیکھ رہا ہے اگر قوم کو پیغام جائے گا کہ اپنا اقتدار بچانے کے لیے، اگر اپنے بجٹ کو پاس کرانے کے لیے کورونا کا شکار اراکین کو ایوان مین لایا گیا تو یہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی توہین ہوگی۔انہوں نے اسپیکر اسمبلی سے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آج اور کل ہونے والے اجلاسوں میں کورونا سے متاثر اراکین شریک نہیں ہوں گے۔خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو مزید نقصان پہنچانے سے روکنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے پیٹرول کی قیمت 100 روپے فی لیٹر کردی ہے، اس سے نا صرف پیٹرول پر اثر پڑے گا بلکہ یہ اب گیس اور بجلی پر بھی بم گرائیں گے۔مسلم لیگ( ن) کے رہنما نے الزام لگایا کہ حکومت نے ٹیرفس میں تبدیلی کے لیے لیکویڈیٹرز سے وعدے کیے ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ بجٹ ایک عبوری دستاویز ہے، ہم مزاحمت کریں گے اور اس کی مخالفت کریں گے۔ان کاکہنا تھا کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج میں دہشت گردوں کے حملے کی اطلاع ملی ہے جس میں چاروں دہشت گردوں کو مار دیا گیا ہے جبکہ ایک پولیس اہلکار اور شہری شہید ہوئے، میں اس پر انتہائی افسوس اور غم کا اظہار کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ 2013 میں جب ہم اقتدار میں آئے تو پاکستان کے طول و عرض میں دہشت گردی کا بازار گرم تھا، پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں مختلف آپریشنز کا آغاز کیا گیا تھا جس میں سوات آپریشن ہوا تھا جس سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو پاکستان کا کوئی فرد کراچی سے لے کر گلگت تک دہشت گردی سے محفوظ نہیں تھا۔خواجہ آصف نے کہا کہ پچھلے 7 سے 8 سال میں ہماری رینجرز، پولیس اور افواج کی قربانیوں اور شہادتوں، ان حملوں میں شہید ہونے والوں کی قربانیوں کی بدولت دہشت گردی میں بہت حد تک کمی آچکی ہے لیکن آج کا واقعہ اور چند روز قبل وزیرستان میں کیپٹن کی شہادت ہوئی تھی تو میرا خیال ہے کہ یہ جنگ ختم نہیں ہوئی اور دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ جاری ہے۔ان کے بعد وفاقی وزیر برائے صنعت حماد اظہر نے کہا کہ آج کے اجلاس میں ہم فنانس بل سے متعلق ترامیم پیش کرنے اور اسے منظور کرنے کے لیے موجود ہیں۔حماد اظہر نے کہا کہ سخت حالات ہیں، اراکین نے ماسکس پہنے ہیں شیلڈز بھی لگائے ہوئے ہیں، آج میں توقع کررہا تھا کہ ایوان میں جامع گفتگو ہوگی لیکن بارہا اپوزیشن کی جانب سے ذاتی حملے کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ ہماری اپوزیشن کا یہ حال ہے کہ ملک وبا کا شکار ہے اور یہ ایوان کے اس قیمتی وقت میں جہاں پوری ملک کی قیادت موجود ہے ذاتی حملے کرنے میں مصروف ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اجلاس میں تیل کی قیمتوں پر بات ہوئی، جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی تو ہم دنیا کا وہ ملک تھے جہاں قیمتوں میں سب سے زیادہ کمی کی گئی تھی۔حماد اظہر نے کہا کہ آج جب تیل کی قیمت اپنے نچلے پوائنٹ سے دگنے سے زیادہ ہوگئی ہے تو قیمت دوبارہ بڑھی ہے جسے عالمی مارکیٹ کے تحت کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جب تک زراعت کی بنیاد ٹھیک نہیں کی جائے گی یہ ملک آگے ترقی نہیں کرسکتا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ فنانس بل میں پیش کی جانے والی ترامیم میں دو اور تین پہیے والی گاڑیوں اور ٹرک سے متعلق ترامیم موجود ہیں جو تاریخی ہیں۔حماد اظہر نے کہا کہ اگر ہم اس ملک کو وبا سے نکالنا چاہتے ہیں تو اس ٹیکس فری بجٹ پر متفق ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کبھی ٹیکس فری بجٹ آیا ہو کہ ایک کروڑ 60 لاکھ گھرانوں کو مستفید کرنے کے لیے ذرائع موجود ہوں، 30 لاکھ کاروبار کے 3 ماہ کے بجلی کے بل ادا کیے جارہے ہوں، چھوٹے صارفین کے لیے بجلی کے بلوں کو مخر کیا گیا ہو، صحت کے لیے 50 ارب روپے رکھے گئے ہوں، پی ایس ڈی پی میں سب سے زیادہ رقم بلوچستان اور پھر صوبہ سندھ کے لیے مختص کی گئی ہو۔وفاقی وزیر نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب میں بجٹ تقریر پیش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تھا اور جب بجٹ پیش بھی نہیں ہوا تھا تو نامنظور کے نعرے لگائے گئے جبکہ اس وقت معلوم بھی نہیں تھا کہ بجٹ میں کیا ہے۔اجلاس کے دورام متحدہ مجلس عمل کے مولانا اسد محمود اور پی ٹی آئی کے علی امین گنڈا پور کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔بجٹ مسترد کرتے ہوئے مولانا اسد محمود نے حکومت کی کارکردگی سمیت کشمیریوں کے مسائل سے متعلق حکومت پر تنقید بھی کی۔بعدازاں وفاقی بجٹ منظور ہونے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اجلاس آج بروز منگل کی صبح 11بجے تک ملتوی کردیا۔
#/S