آئین مقدم ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں ہر صورت اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرینگے ، چیف جسٹس پاکستان

یہ عدالت 24گھنٹے کام کرتی ہے کسی کو انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے،، قومی لیڈروں کو عدالتی فیصلوں کا دفاع کرنا چاہیے

سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کا تحفظ کریں

دس سے 15 ہزار لوگ جمع کر کے تنقید کریں تو ہم  ایسے ماحول میں کیوں فیصلے دیں

 سوشل میڈیا پر جو چل رہا ہے اسکی پرواہ نہیں، آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں لیکن اپنا کام کرتے رہیں گے،صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ریمارکس

اسلام آباد(ویب  نیوز) سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح کیلئے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمار کس دیئے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلوں کا احترام چاہتے ہیں آئین مقدم ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں ہر صورت اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرینگے ، یہ عدالت 24گھنٹے کام کرتی ہے کسی کو انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے ، سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کا تحفظ کریں ۔ ، 10 سے 15 ہزار لوگ جمع کر کے تنقید کریں تو ہم  ایسے ماحول میں کیوں فیصلے دیں، سوشل میڈیا پر جو چل رہا ہے اسکی پرواہ نہیں، آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں لیکن اپنا کام کرتے رہیں گے، قومی لیڈروں کو عدالتی فیصلوں کا دفاع کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح کیلئے بھجوائے گئئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کا آغاز کیا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے پیش ہو کر موقف اپانیا کہ ابھی تک نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی نہیں ہوسکی،اگر مناسب سمجھیں تو نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کا انتظار کرلیا جائے کیونکہ تین چار روز میں نئے ٹارنی جنرل کی تعیناتی کا امکان ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ صدارتی ریفرنس میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے تھے نئے اٹارنی جنرل نے کوئی موقف دینا ہوگا تو بعد میں دے دیں گے، عدالتی چاہتی ہے کہ صدارتی ریفرنس کو چلانا چاہیے، اس معاملے میں ایک درخواست تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے بھی دائر کی ہے، اس دوران وکیل بابر اعوان نے استدعاکی کہ تحریک انصاف کی درخواست پر فریقین کونوٹس کردیں ،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ درخواست جس ایشو سے متعلق ہے اس پر عدالت میں بات ہو رہی ہے،جن کو نوٹس کرنا ہے وہ تمام فریقین کمرہ عدالت میں موجود ہیں ، یہ آئینی بحث کا مقدمہ ہے ، چیف جسٹس نے کہاکہ صدراتی ریفرنس آیا ہے اس پر سماعت کو آگے چلائیں گے ، اس دوران ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیازاللہ خان نیازی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایاکہ ووٹ پارٹی کی امانت ہوتا ہے۔پیسے لیکر ضمیر نہیں بیچا جاسکتااگر کسی کا ضمیر جاتا ہے تو اسے رکنیت سے مستعفی ہو کر عوام کے پاس جانا چاہیئے ۔ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے مزید کہاکہ کروڑوں روپے لینے والا قانون سازی کیسے کرسکتا ہے ایسے تو پیسے دیکر تو اراکین اسمبلی سے ملک مخالف قانون سازی کرائی جاسکتی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل کا مزید کہنا تھا کہ  اسلام آباد اورپنجاب میں جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔انہوں نے کہاکہ  تمام اسٹیک ہولڈر عدالت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔  اب تو منحرف اراکین عوام میں بھی نہیں جاسکتے۔اس دوران جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکہ کچھ لوگ چاہتے ہیں انحراف کی اجازت ہو کچھ چاہتے ہیں نہ ہو؟  آج کل آسان طریقہ ہے دس ہزار بندے جمع کرو کہو میں نہیں مانتا۔پارلیمان نے آئین کے آرٹیکل 63 اے میں تاحیات نااہلی کا واضح نہیں لکھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ  پارلیمنٹ نے یہ جان بوجھ کر نہیں لکھا یا غلطی سے نہیں لکھا گیا۔  پارلیمنٹ موجود ہے معاملہ دوبارہ اس کے سامنے پیش کردیںعدالت کے سر پر کیوں ڈالا جارہا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ  آئین کی تشریح کرنا عدالت کا ہی کام ہے۔ سینٹ الیکشن کے بعد بھی ووٹ فروخت ہورہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کو خود ترمیم کرنے دیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ دس سے پندرہ ہزار لوگ جمع کر کے عدالتی فیصلے پر تنقید کریں تو ہم کیوں فیصلے دیں، ہم اس عدالت کے  فیصلوں کا احترام چاہتے ہیں،عدالت اپنا آئینی کام سر انجام دیتی ہے، قومی لیڈروں کو عدالتی فیصلوں کا دفاع کرنا چاہیے، آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں لیکن گالیوں کے باوجوداپنا کام کرتے رہیں گے،عدالت کیوں آپ کے سیاسی معاملات پر پڑے؟چیف جسٹس نے کہاکہ پارلیمانی جمہوریت کی ایک بیناد سیاسی جماعت ہے، سیاسی جماعتوں کو چار صورتوں میں آرٹیکل 63 میں تحفظ دیا گیا ہے، ضیا الحق نے پارٹی سے انحراف پر پابندی کی شق آئین سے نکال دی تھی ، ہارس ٹریڈنگ پر فیصلے آئے تو 1998 میں آئین میں ترمیم کی گئی ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 2010 میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا  ،آئین کی خلاف ورزی چھوٹی بات نہیں ہے،کئی لوگ آئین کی خلاف ورزی پر آرٹیکل چھ پر چلے جاتے ہیں، آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پرآرٹیکل 6 کا کیس نہیں بنتا ،صدراتی ریفرنس کے مطابق منحرف اراکین پر آرٹیکل 62 ون کا اطلاق ہونا چاہیے، چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت یہ تعین کرے گی کہ آئین سے انحراف کا کیا نتیجہ ہوگا ،آئین کی خلاف ورزی کرنے والا یاتو اپنی خوشی پر جائے گا یا قیمت ادا کرنی ہو گی،ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اپانایا کہ پارٹی سے انحراف رکن اسمبلی کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کے ذریعے تاحیات نااہلی ہوئی تو آرٹیکل 95 کی کیا اہمیت رہ جائے گی۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ آرٹیکل 95 کا سوال ابھی عدالت کے سامنے نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان نے سوال کیا کہ کیا عدالت اپنی طرف سے تاحیات نااہلی شامل کر سکتی ہے۔ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ آئین کے ارٹیکل باسٹھ ون ایف کی تشریح میں عدالت تاحیات نااہلی قرار دے چکی ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کے دلائل مکمل ہوئے تو تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کی درخواست کا میمو دیکھ لیں۔ بابر اعوان نے مزاحا کہاکہ  درخواست کا میمو گیٹ سے تعلق نہیں ۔جس پر جسٹس جمال خان نے کہاکہ اب گیٹ بند کرنا ہو گا۔بابر اعوان نے جواب دیا کہ گیٹ بند کرنے کا موقع تھا لیکن ضائع کردیا گیا۔ بابر اعوان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ اس وقت صرف وزیر اعظم ہیں کابینہ نہیں،ملک میں 8 دن سے کوئی حکومت نہیں، نہ اٹارنی جنرل ہے نہ وزیر قانون ہے حکومت کی جانب سے کون دفاع کرے گا؟ اس پر چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ پی ٹی آئی کو نوٹس صدارتی ریفرنس میں کیا گیا تھا ابھی تحریک انصاف کی درخواست کی باری نہیں آئی، چیف جسٹس نے بابر اعوان سے استفسار کیا کہ کیا آپ سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید کے دلائل اپنائیں گے، بابر اعوان نے جواب دیا کہ خالد جاوید خان کے دلائل کسی صورت نہیں اپناونگا  کیونکہ سابق اٹارنی جنرل نے دلائل میں کلابازیاں کھائیں تھیں،جس پر عدالت نے بابر اعوان سے کہا کہ وہ صدارتی ریفرنس پر اپنے دلائل دیں تو  بابر اعوان نے کہاکہ انہوں نے تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر سے مشاورت کرنی ہے سے لئے صدارتی ریفرنس پر دلائل کیلئے کل تک کا وقت دیں کل دلائل دونگا ،عدالت نے باراعوان کو کل دلائل دینے کی اجازت دی تو بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل مصطفی رمدے نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ ریفرنس پی ٹی آئی حکومت کا نہیں صدر پاکستان کا ہے اورصدر پاکستان کا ریفرنس برقرار ہے ہر صورت سنیں گے  اوریہ عدالت آرٹیکل 63 اے پر  اپنی رائے بھی دے گی ، مصطفی رمدے نے دلائل میںکہاکہ صدرمملکت  نے ریفرنس میں عدالت سے آئین دوبارہ لکھنے کا کہا ہے  حالانکہ آئین کاآرٹیکل تریسٹھ اے بالکل واضح ہے۔ مصطفیرمدے نے سوال اٹھایا کہ کیا عدالتی اختیارات میں کمی کی آئینی ترمیم پر پارٹی پالیسی سے اختلاف جرم ہو گا۔ اس دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ  آئینی ترمیم میں ووٹ نہ دینا اور مخالف پارٹی کو ووٹ دینا الگ چیزیں ہیں مخالف پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے مستعفی ہونا زیادہ معتبر ہے، ایڈووکیٹ مصطفی رمدے نے کہاکہ مستعفی ہونے جیسا انتہائی اقدام واحد حل کیسے ہو سکتا ہے؟پارٹی سربراہی کی پابندی کرنا غلامی کرنے کے مترادف ہے۔  اس پر جسٹس منیب اختر نے کہاکہ ایسی بات سے اپ پارلیمانی جہموریت کی نفی کررہے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے سے اختلاف ہے تو الگ ہو جائیں گے۔ ضمنی الیکشن آزاد حثیت سے لڑ کر واپس آیا جاسکتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ  جسے آئین نے منحرف قرار دیا ہے، اپ اسے معزز کیسے بنارہے ہیں؟جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ اگر آرٹیکل 63اے میں تاحیات نااہلی ہوجائے تو ئین کا آرٹیکل 95غیر موثر ہو جائیگا۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے اور پچانوے ایک دوسرے کو کیسے غیر موثر کرتے ہیں۔  آرٹیکل پچانوے اور آرٹیکل تریسٹھ اے میں توازن پیدا کرنا ہو گا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل پچانوے پارٹی سے انحراف کرنے کے رحم و کرم پر نہیں ہوتا۔جسٹس مینب اختر نے بی این پی کے وکیل سے کہاکہ آپ چاہتے ہیں عدالت قرار دے کہہ عدم اعتماد میں ہر رکن کو آزادانہ ووٹ دینے کا حق ہے، آرٹیکل تریسٹھ اے کو آرٹیکل 62 اور 63 کیساتھ تو ملا کر ہی پڑھا جاسکتا ہے۔  چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ کوئی شکایت ہے یا نہیں کیا ہورہا ہے ہم نہیں جانتے ،، ایڈووکیٹ مصطفی رمدے نے کہاکہ یہ بدقسمتی ہے جو اسلام آباد اور لاہور میں ہوا ،، اس دوران بابر اعوان نے کہاکہ ویڈیو معاملے پر دو رکن الیکشن کمیشن گئے  لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا ، چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ بابر اعوان نے جو بات کی ہے اس سے لگتا ہے کہ انکی جماعت تحریک انصاف بھی سنجیدہ نہیں ہے ازخود نوٹس کیس کے حوالے سے  سپریم کورٹ نے پیرامیٹرز طے کردیے ہیں، بابر اعوان صاحب ہمیں مایوسی ہوئی ہے آپکی جماعت نے الیکشن کمیشن میں درخواست دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق عمل نہیں کیا ، اس پر بابر اعوان نے وضاحت کی کہ سینیٹ کے انتخابات میں دو جماعتوں کے ووٹ فروخت ہوئے  عبدالحفیظ شیخ کو شکست ووٹ بکنے سے ہوئی  اور چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں بھی سب نے دیکھا کیا ہوا ،شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے، چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے وقت پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی، اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ میں کوئی شکایت نہیں کر رہا سیاسی جماعتوں سے درخواست کر رہا ہوں کہ پارلیمانی جمہوریت کا دفاع کریں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ ریفرنس سے لگتا ہے آئین میں نقص نہیں، نقص ہم میں ہے،ایڈووکیٹ مصطفی رمدے نے سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم کاذکر کیا تو چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ سوشل پر جو چل رہا ہے اسکی پرواہ نہیں،ہم آئین کے محافظ ہیں، یہ 24 گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے، کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں  ۔ بی این پی کے وکیل نے کہاکہ جس ریفرنس میں آڈیو وڈیو کا ذکر کیا گیا اس پر حکومت نے خود کچھ نہیں کیا، بلوچستان میں حکومت تبدیل ہوئی وفاق نے کچھ نہیں کیا،، اسلام آباد اور پنجاب میں جو ہوا وہ بھی عدالت کے سامنے ہے، بابر اعوان نے کہاکہ سینیٹ الیکشن میں آڈیو وڈیو ثبوت لے کر ہمارے دو ممبران اسمبلی الیکشن کمیشن گئے تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ  آپ کے دو ارکان اسمبلی الیکشن کمیشن گئے لیکن آپ کی جماعت نہیں گئی ، چیف جسٹس کا بابر اعوان سے مکالمہ  میں کہنا تھا کہ معذرت کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ کی جماعت  وڈیو معاملے پر سنجیدہ نہیں تھی، چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ازخود نوٹس لیں،اب سپریم کورٹ ازخود نوٹس لیے جانے کے طریقہ کار طے کر چکی ہے، وکیل مصطفی رمدے نے دلائل میں کہاکہ  عدالت کو سیاسی معاملات میں دخل اندازی کا کہا جا رہا ہے ، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ پارٹی سربراہ کا اختیار ہے کہ منحرف رکن کے خلاف کاروائی کرے ، ممکن ہے کہ پارٹی سربراہ کوئی کاروائی نہ کرے  اور یہ بھی ممکن ہے کہ انحراف کرنے والا اپنے عمل کی وضاحت دے،  وکیل مصطفی رمدے کا کہنا تھاکہ عدالت کو مفروضوں کی بنا پر غیر ضروری طور پر سیاسی عمل میں دھکیلا گیا ہے،جسٹس منیب اخترنے کہاکہ پارلیمانی جہموریت کا حسن ہی اکثریت ہوتی ہے۔اس دوران ایک اور درخواست گزار وکیل احسن عرفان نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیاکہ  اگر کوئی منحرف رکن اپنے عمل کی وضاحت کر دے تو کیا ہو گا؟وکیل  احسن عرفان نے جواب دیا کہ وضاحت کردے گا تو پھر کاروائی نہیں ہو گی کیونکہ  آئین کے مطابق ممبر کے پاس پارٹی سے انحراف کے خلاف وضاحت کے لیے تین فورم ہیں۔وکیل احسن عرفان کے  دلائل ختم ہوئے تو عدالت نے صدارتی ریفرنس کی سماعت آج  دن ایک بجے تک ملتوی کر دی اور کہاکہ کل بابر اعوان کو سنیں گے۔

#/S