لاپتہ افراد کے مقدمات بھی عدالت میں چلنے چاہیں۔مریم نواز شریف
سینیٹ الیکشن کی چوری کے وقت شو آف ہینڈز یاد کیوں نہ رہے
اسلام آباد (ویب نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں عدالتیں کھلی ہیں اور اگر شو آف ہینڈز کا کیس عدالت میں لے جاسکتے ہیں تو لاپتہ افراد کے مقدمات عدالت میں چلائیں ، لوگوں کا پتہ چلے،سینیٹ کا الیکشن چوری کیا گیا اس وقت شو آف ہینڈز یاد کیوں نہ رہا جب لگا کہ ہار جاء گے یا آپ سے لوگ چلے جائیں گے تو مقدمہ سپریم کورٹ میں لے گئے ان خیالات کا اظہار مریم نواز شریف نے بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین سے ڈی چوک میں اظہار یکجہتی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ لاپتہ افرادکا مقدمہ بھی عدالتوں میں لے جائیں،دہشت گردی کے مقدمات کے بھی عدالت ہے۔ خصوصی عدالتیںبھی ہیں، آپ لے کر جائیں وہاں تا کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ واقعی قصوروار ہیں یا آپ سے غلطی ہوئی ہے۔ حکمران ہر چیز نہیں کرسکتے مجھے اندازہ ہے تاہم وہ سر پر ہاتھ تو رکھ سکتے ہیں۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہم مائیں، بہنیں ، بیٹیاں، باپ بیٹے ہیں ہم سب کو احساس ہے کہ یہ رشتے کتنے بڑے ہوتے ہیں، میں لاپتہ لواحقین کی بات سن کر یہ سوچ رہی ہوں کہ جب آپ کا کوئی پیارا چلا جاتا ہے اور آپ کی نظروں کے سامنے اللہ تعالیٰ کو پیارا ہوجاتا ہے اور ہم اس کو قبر میں دفنا کر آتے ہیں رہتی زندگی تک کبھی اس کی یاد انسان کو نہیں بھولتی ، جینے نہیں دیتی اس کی تکلیف دل میں رہ جاتی ہے۔ لیکن مجھے نہیں پتہ اس انسان کا کیا غم ہو گا جو روز صبح اٹھ کر اپنے پیاروں کا انتظار شروع کردیتا ہے اور رات کو سوتے تک دروازہ دیکھتے رہتے ہیں ، آنکھیں راستہ تکتی رہتی ہیں ۔ ان کا کہنا تھا جن بچوں کو یہ پتہ نہ ہو کہ ہم یتیم ہیں یا ہمارا والد حیات ہے ، جس ماں کو یہ پتہ نہ ہو کہ میرا بیٹا زندہ ہے یا مر گیا ہے یا کسی بیوی کو یہ پتہ نہ ہو کہ میرا شوہر مر گیا ہے یا حیات ہے، کسی بیٹی کو یہ پتہ نہ ہو کہ اس کے والد زندہ ہیں یا زندہ نہیں ہیں۔ یہاں پر ایسے لوگ بھی ہیں جن کے والد 2009سے لاپتہ ہیں، کتنے سال ہو گئے ہیں یہ لوگ روز اسی کرب سے گزرتے ہیں۔ یہ لوگ عزت سے اپنے گھروں میں رہنے والے لوگ ہیں اور یہ اسلام آباد کی گلیوں میں ، سردیوں میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتی ہوں کہ پہلے انسان کے بیانات بڑے ، بڑے ہوتے ہیں لیکن جب انسان کو اقتدار مل جاتا ہے تب انسان کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں اور تب انسان کی مجبوریاں بھی سامنے آجاتی ہیں لیکن میں اتنا پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا انسان کی مجبوریاں وہ اس کے فرض سے بڑی ہوتی ہیں، چاہے آپ سلیکٹڈ ہیں اور آپ کو جس طرح بھی اقتدار میں بٹھایا گیا ہے ، لیکن آپ کا فرض ہے، ریاست کا فرض ہے، ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے ، ملک ماں کی طرح ہوتا ہے، آپ کا فرض ہے کہ آپ ان کو نہیں بتا سکتے یا آپ ان کے پیاروں کو بازیاب نہیں کرسکتے تو آپ یہ تو کرسکتے ہیں کہ جن کے لوگ ٹارچر سیلز میں ہیں ، آپ ان کو بتا دیں کے ان کے پیارے کہاں ہیں ، آپ کی مجبوریاں ہو سکتی ہیں، ایجنسیز کی مجبوریاں ہو سکتی ہیں ، میں ملکی ایجنسیز سے بھی یہ کہتی ہوں کہ آپ کی بھی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور آپ کی بھی اولادیں ہیں ، آپ کے والدیں ہیں، خدا کے واسطے آپ ان کو یہ بتا دیں کے ان کے پیارے مر گئے ہیں یا زندہ ہیں وہ کچھ نہیں کریں گے، وہ رو دھوکر چپ کر جائیں اور جو قیامت ان کے اوپر روز گزرتی ہے اس کو تو قرار آئے گا۔ میں عمران خان سے بھی کہنا چاہتی ہوں کہ وزیراعظم ہائوس یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے شاید پانچ منٹ کا راستہ نہ ہو اور یہ بچیاں مجھے بتا رہی ہیں کہ یہ ایک ہفتے سے یہاں آکر بیٹھی ہوئی ہیں، آپ نے ایجنسیز کو جواب نہیں دینا بلکہ اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے۔ 22کروڑ عوام آپ کی ذمہ داری ہیں، آپ ان کے لئے کچھ نہیں کرسکتے، آپ کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، آپ ان کے سر پر ہاتھ تو رکھ سکتے ہیں، یاآپ کو کہنے کے لئے یہی باتیں ملی ہیں کہ میں لاشوں سے بلیک میل نہیں ہوںگا، یہ لاشیں نہیں بلکہ جیتے جاگتے زندہ لوگ ہیں، آئیں ان کی باتیں سنیں اور ان کے زخموں پر نمک چھٹرکنے کی بجائے آئیں اور ان کے سروں پر ہاتھ رکھیں۔ میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہ آپ ہی کے ملک کے لوگ ہیں ، آپ ہی کی بیٹیاں ہیں اور آپ ہی کی مائیں ہیں ، آئیں ان کے ساتھ بات کریں اور ان کا جو مسئلہ حل ہو سکتا ہے اس کو حل کریں ، جو ان کے لوگ زندہ ہیں ان کو عدالتوں میں پیش کریں اور جو زندہ نہیں ہیں کم ازکم ان کو اطلاع دے دیں کہ وہ لوگ زندہ نہیں ہیں، روز محشر کو یاد رکھیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف رکھیں ، حکمران کی پوچھ بہت بڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیشنز صرف آنکھوں کو دھوکہ دینے اور وقت حاصل کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ اگر کسی نے کوئی قصور کیا ہے تو اس کو سزا دیں اور اس کے اہلخانہ کو بتائیں کہ اس شخص نے قصور کیا ہے اور اگر کوئی دنیا سے چلا گیا انہیں اطلاع تو کریں یہ ان کا بنیادی حق ہے کہ ان کو پتہ ہو کہ آپ کا پیارا زندہ بھی ہے یا دنیا سے چلا گیا ہے۔ مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ میں اس وقت سوائے اظہار یکجہتی کے اور کچھ نہیں کرسکتی ، میں ان کی بات سن سکتی ہوں اور ان کو احساس دلا سکتی ہوں کہ یہ بلوچستان سے ہیں لیکن یہ اکیلے نہیں ہیں ، اگر یہ بلوچستان سے ہیں تو یہ ملک کی مائیں اور بیٹیاں ہیں اور پنجاب یا دیگر صوبوں کے لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بلوچستان زخمی صوبہ ہے اس کی شکایات ٹھیک بھی ہیں لیکن جب آپ کا کوئی صوبہ ناراض ہوتا ہے اور اس کی تکلیفیں ہوتی ہیں اور اس کی جینوئن شکائتیں ہوتی ہیں تو آپ ان کو دھکا دے کر پرے نہیں کرتے بلکہ آپ ان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا سلوک اپنے ہی لوگوں کے ساتھ نہیں ہونا چاہیئے۔ ہاں اگر کچھ سیکیورٹی کی مجبوریاں ہیں اگر آپ کو لگتا ہے کہ کسی نے کوئی جرم کیا ہے، کوئی اس میں ملوث ہے تو ا س کاا یک طریقہ کار ہے ، اس کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ اس کو آپ رات کو گھر سے اٹھا کر لے جائیں اور10سال تک اس کے گھر والوں یہ نہ بتائیں کہ آپ پیارا ہے کدھر ، کم ان کم جو بھی ان کا اسٹیٹس ہے وہ زندہ ہیں، یا مرگئے ہیں، یا ٹارچر سیل میں ہیں یا کہیں بھی ہیں کم ازکم ان کے گھر والوں کو بتا دیں تا کہ ان کو چین آجائے۔