بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ نشریاتی ادارہ
بھارتی وزارت خارجہ کے اہلکاروں اور مسلح گارڈز کی نگرانی میں غیر ملکی سفیروں نے کشمیر کا دورہ کیا
سری نگر(ویب نیوز )مغربی نشریاتی ادارے نے کہا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں متعارف کرائے گئے نئے قوانین بالخصوص ڈومیسائل قانون کا مقصد خطے میں ہندو آبادکاری کے ذریعے اس کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔۔5 اگست 2019 میں نئی دہلی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی گئی تھی ۔ دو روز قبل چوبیس ممالک کے مندوبین نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا اپنا کئی روزہ دورہ مکمل کیا۔ ڈی ڈبلیو کے مطابق اس دورے کے ایک روز بعداقوام متحدہ کے چند ماہرین نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں متعارف کردہ چند حالیہ قوانین پر تحفظات ظاہر کیے ہیں۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر سے وابستہ دو ماہرین نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انتظامی سطح پر تبدیلیاں، خطے کے مسلمانوں اور اقلیتوں کے سیاست میں کردار کو محدود کر سکتی ہیں۔مغربی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق چوبیس ممالک کے مندوبین نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا اپنا کئی روزہ دورہ مکمل کیا۔ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد چوبیس ممالک کے مندوبین کا اس نوعیت کا تیسرا دورہ تھا۔ خارجہ امور کی وزارت کے اہلکار اور مسلح گارڈز ہر وقت افریقہ اور یورپی یونین سمیت وسطی و جنوبی ایشیائی ممالک کے ان نمائندگان کے ساتھ تھے۔ بھارت کا دعوی ہے کہ ابتدائی بے چینی کے بعد اس کے زیر انتظام کشمیر میں حالات اب معمول کے مطابق ہیں۔بھارتی حکومت نے کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں بانٹ دیا اور انتظام وفاق کے ہاتھوں میں لے لیا۔ لیکن اس کے بعد سے کئی ایسے قوانین متعارف کرائے، جنہیں چند مبصرین متنازعہ مانتے ہیں۔ حال ہی میں متعارف کردہ ڈومیسائل سے متعلق قانون کے بارے میں چند مبصرین کا ماننا ہے کہ اس کا مقصد خطے میں ہندو آبادکاری کے ذریعے اس کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ اسی تناظر میں فرنینڈ ڈی ویرانس اور احمد شہید کا بیان بھی سامنے آیا۔