کراچی: (دنیا نیوز) سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔سٹیٹ بینک کی طرف سے مانیٹری پالیسی کا بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شرح سود کو 7 فیصد پر برقرار رکھا ہے، بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ ہورہا ہے، خام تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔بجلی ، چینی اور گندم کی قیمتوں سے مہنگائی بڑھی ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق کورونا کی تیسری لہر کے خدشات منڈلا رہے ہیں۔ نجی شعبے کے قرضوں میں اضافہ رکارڈ کیا گیا ہے۔
معیشت کے حوالے سے مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں 8 فیصد کے قریب اضافہ رکارڈ کیا گیا ہے، روزہ مرہ استعمال کی اشیاء کی فروخت بھی بہتر ہورہی ہے اور معاشی سرگرمیاں تیز ہونے سے ملازمت کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ رواں مالی سال بین الاقوامی ادائیگیوں کے مقابلے وصولیوں کا پلڑا بھاری ہے، ایکسپورٹس بڑھنا شروع ہوچکی ہیں ۔آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے ادائیگیوں کی صورتحال مزید بہتر ہونے کی امید ہے ۔ یہ تمام مثبت پہلو روپے کو مستحکم کررہے ہیں۔ ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس آمدن میں اضافہ مالی خسارے کو معاشی پیداوار کے ڈھائی فیصد کے طے شدہ ہدف تک محدود کرسکتا ہے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق اسٹیٹ بینک کی مختلف آسان قرض اسکیموں اور موجودہ کم شرح سود سے نجی شعبووں کے جانب سے قرضوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔
اس سے قبل 22 جنوری 2021ء کو گورنمر سٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اعلان سناتے ہوئے شرح سود 7 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
گورنر سٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں مانیٹری پالیسی اسی سطح پر رہے گی۔ اگر ضرورت ہوئی تو شرح سود مناسب طریقے سے بڑھائیں گے، مہنگائی کی شرح 7 سے 9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ملکی معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں، ابھی وہ بہتری نہیں آئی جو دیکھنا چاہتے ہیں، مہنگائی کو کنٹرول رکھنے کے لیے شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مہنگائی میں بجلی یا بین الاقوامی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتو یہ عارضی ہے اورغذائی اشیا کی مہنگائی بھی عارضی تھا، اس لیے کمیٹی کا خیال تھا کہ ان کی وجہ سے شرح سود میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ بجلی کے نرخ بڑھنے سے مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کا خیال تھا کہ طلب میں دباؤ نہیں ہے کیونکہ ہماری صلاحیت مکمل طور پر زیر استعمال نہیں اور مہنگائی کی پیش گوئی میں توازن ہے۔
رضا باقر نے کہا کہ ان ساری وجوہات کی وجہ سے مانیٹری پالیسی کمیٹی کو معاشی حالت پر نظر رکھنا چاہیے، اس پر نکتہ نظر تھا کہ پہلے کے مقابلے میں حالات بہتر ہو رہے ہیں، کووڈ سے پہلے کے مقابلے میں حالات میں بہتری آئی ہے لیکن قوم کی توقعات کے مطابق اب بھی نہیں ہے۔