کشمیری صحافیوں کو پولیس تھانوں میں بلایا جاتا ہے ، تشدد بھی کیا جاتا ہے ۔ وی او اے
نئی پالیس میںانتظامیہ کو "ملک دشمن” خبروں کے متعلق فیصلہ کرنے کا مجاز بنا دیا گیا ہے
سری نگر(ویب نیوز ) امریکی نشریاتی ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر5 اگست 2019 کے بعد کشمیری صحافی مشکل صورت حال سے گزر رہے ہیں، ایک نئی میڈیا پالیسی کے تحت ان پر پابندیاں لگائی گئی ہیں انہیں تھانوں میں بلایا جاتا ہے ، تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے ۔ وی او اے کے مطابق جب بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کردی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقوں کا درجہ دیدیا، تو مکمل انفارمیشن بلیک آٹ، تمام قسم کی مواصلاتی سہولیات کی معطلی اور دوسرے سخت گیر اقدامات کی وجہ سے ان کے لیے کام کرنا اور زیادہ مشکل ہو گیا ۔کشمیر کی صحافتی تنظیموں کے مطابق، گزشتہ بیس ماہ کے دوران کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کرنے، انہیں پولیس تھانوں یا پولیس افسران کے سامنے پیش ہوکر اپنی رپورٹس اور خبر سازی کے عمل کے بارے میں وضاحتیں پیش کرنے اور اپنے سورسز یا ذرائعِ خبر کو افشا کرنے کے لیے ان پر دباو ڈالنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔صحافیوں کی سر راہ مارپیٹ کرنے کے متعدد واقعات بھی پیش آئے ہیں ۔کئی صحافیوں کو جرنلسٹس کوٹا کے تحت فراہم کی گئی رہائشی سہولیات بغیروجہ بتائیواپس لے لی گئیں اور کئی مقامی اخبارات کو سرکاری اشتہارات جار ی کرنا بند کردیا گیا یا انہیں اس فہرست سے خارج کردیا گیا جسکے تحت یہ اشتہارات جاری کئے جاتے ہیں۔جون 2020 میں حکومت نے ایک نئی میڈیا پالیسی بنائی، جس کے تحت انتظامیہ کو "ملک دشمن” خبروں کے متعلق فیصلہ کرنے کا مجاز بنایا گیا تھا اور حکومت کو ذرائع ابلاغ کے متعلقہ ادارے، صحافی اور مدیران کے خلاف تعزیری کارروائی کرنے کا ا ختیار بھی حاصل ہوگیا تھا۔فوری سزا میں سرکاری اشتہارات روکنا اور متعلقہ صحافی یا ادارے کے بارے میں سیکیورٹی ایجنسیوں کو مطلع کرنا بھی شامل تھا۔اگرچہ پولیس اور حکومتی اداروں کی ان کارروائیوں کے خلاف کشمیر ، بھارت اور عالمی سطح پر میڈیا کے صحافتی حلقوں میں ناراضگی کا اظہار کیا گیا اور اس کی مذمت بھی کی گئی، بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے صحافی ان حالات میں بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔