اسلام آباد (ویب ڈیسک)
سپرپم کورٹ کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا، افسران نے دیگر ملازمین کے بجائے اپنی تنخواہیں بڑھا دیں، اسٹیٹ بینک کی پوری انتظامیہ کو فارغ کرنا چاہیے تھا۔
سپریم کورٹ میں گولڈن ہینڈ شیک اسکیم کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے اسٹیٹ بینک کی انتظامیہ پر برہم ہوتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ افسران نے دیگر ملازمین کے بجائے اپنی تنخواہیں بڑھا دیں، اسٹیٹ بینک کی پوری انتظامیہ کو فارغ کرنا چاہیے تھا، اسٹیٹ بینک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا، اتنا بڑا نقصان بینک انتظامیہ کی نااہلی سے ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح کے معاملات سامنے آتے ہیں تو تکلیف ہوتی ہے، کتنی شرم کی بات ہے کہ بڑے بڑے افسران تنخواہیں لے کر اداروں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اسٹیٹ بینک کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ادارے کو بعد میں کتنے روپے ادا کرنا پڑے ؟۔ جس پر اسٹیٹ بینک کے وکیل نے جواب دیا کہ اسٹیٹ بینک کو تقریباً دو ارب روپے ادا کرنا پڑے۔ چیف جسٹس نے برہم ہوتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اتنے بڑے نقصان کے بعد آپ کے کسی آفسر کو اثر ہی نہیں ہوا ہوگا۔
ملازمین کے وکیل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ اسٹیٹ بینک کے وکیل نے تو متعلقہ دستاویزات ہی نہیں لگائیں۔ چیف جسٹس نے اسٹیٹ بینک کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جیسے سینیئر وکیل سے ہم یہ امید نہیں کرتے تھے۔
عدالت نے گولڈن ہینڈ شیک کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی، تاہم عدالت نے کہا کہ کیس کی مزید سماعت چھ ماہ بعد ہوگی۔