منصوبے کی بڈز جمع کرواتے وقت چینی کمپنی پاور چائنا کے پاس پاکستان انجینئرنگ کونسل کا کوئی لائسنس نہیں تھا
بھاشا ڈیم کے لیے پاور چائنا اور ایف ڈبلیو او کو معیار پر پورا نہ اترنے کے باعث مسترد کیا جانا چاہیے تھا، رپورٹ
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2020-21رپورٹ میں دیامر بھاشا ڈیم منصوبے کا ٹھیکہ دینے میں اربوں روپے کی بے قاعدگی کا انکشاف کیا گیا ہے، رپورٹ کے مطابق کہ دیامر بھاشا ڈیم کے 442ارب روپے سے زیادہ مالیت کے منصوبے کا ٹھیکہ دیتے وقت منصوبے کی بولی کے عمل کے دوران بے قاعدگی اور پیپرا رولز کی خلاف ورزی ہوئی۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں دیامر بھاشا ڈیم منصوبے کے کنٹریکٹ ایوارڈ میں بڈنگ اویلوایشن کی سطح پر بے قاعدگی کا انکشاف کیا گیا ہے۔آڈیٹر جنرل پاکستان کی آڈٹ سال 2020-21کی رپورٹ کے مطابق بھاشا ڈیم منصوبے کی بڈز کے جانچ کے معیار کی سطح پر پیپرا رولز کی خلا ورزی ہوئی، بھاشا ڈیم کا پی سی ون 336ارب 50کروڑ روپے کا تھا جبکہ ٹھیکہ 442ارب 40کروڑ روپے میں دیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منصوبے کی بڈز جمع کرواتے وقت چینی کمپنی پاور چائنا کے پاس پاکستان انجینئرنگ کونسل کا کوئی لائسنس نہیں تھا، یہ لائسنس بڈنگ ڈاکیومنٹس کی کلاز 3.1کے تحت درکار تھا۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق پاور چائنا کے ساتھ جوائنٹ وینچر میں شامل مقامی شراکت دار ایف ڈبلیو او بھی بڈنگ ڈاکیو منٹس کے مطابق گزشتہ 20 سال میں پن بجلی یا آبپاشی کے شعبے میں 3ارب روپے کا منصوبہ لگانے کی شرط پوری نہیں کر رہا تھا۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ منصوبے کی بولی کی درخواستوں کی طلبی کا اشتہار انٹرنیشنل اخبارات میں نہیں دیا گیا جو مسابقت کے لیے ضروری ہے، بھاشا ڈیم کے لیے پاور چائنا اور ایف ڈبلیو او کو معیار پر پورا نہ اترنے کے باعث مسترد کیا جانا چاہیے تھا۔رپورٹ کے مطابق معاملہ واپڈا کے ساتھ اٹھایا گیا نومبر 2020کو معاملہ وزارت آبی وسائل کے نوٹس میں بھی لایا گیا۔ واپڈا کی طرف سے بتایا گیا کہ ایف ڈبلیو او کیگومل زیم ڈیم منصوبے میں تجربے کو دیکھا گیا۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق واپڈا کا جواب قبول نہیں کیا گیا کیونکہ گومل زام ڈیم منصوبے کی تعمیر کا کام ایک ذیلی کنٹریکٹر سائنو ہائیڈرو نے کیا تھا۔