سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بظاہر آئینی طور پر یہاں پارلیمانی نظام کا فیصلہ کیا گیالیکن عملی طور پر پارلیمنٹ کو ہی نظر انداز کیا
74سال گزرنے اور وطن عزیز کی اکثریت کی علیحدگی کا زخم کھانے کے بعد بھی ہم کسی ایک حتمی نظام پر مکمل عملدرآمد نہ کرسکے،میڈیا سے گفتگو
کوئٹہ،اسلام آباد (ویب ڈیسک)
جمعیت علما اسلام پاکستان کے سینئر رہنما اور ممتاز پارلیمنٹرین حافظ حسین احمد نے کہا کہ آمریت کو ہمیشہ صدارتی اور پارلیمانی لبادے میں چھپانے کی کوشش کی گئی۔جمعرات کو اپنی رہائشگاہ جامعہ مطلع العلوم میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی کے 74سالوں میں پاکستان میں "آدھا تیتر اور آدھا بٹیر” کی طرز پر نہ تو خالص صدارتی طرز حکومت اور نہ مکمل پارلیمانی نظام آسکا بلکہ اسلام اور سوشلزم میں بھی بھرپور ملاوٹ کی گئی۔ سکندر مرزا سے لیکر جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف تک نے اپنے غیر آئینی اقدام مارشل لا اور آمریت کو صدارتی اور پارلیمانی لبادے میں چھپانے کی کوشش کی جبکہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بظاہر آئینی طور پر یہاں پارلیمانی نظام کا فیصلہ کیا گیا مگر عملی طور پربرسراقتدار طبقہ نے نہ صرف پارلیمانی طریقہ کار بلکہ پارلیمنٹ کے وجود تک کو ہی یکسر نظر انداز کیا جس سے وفاق کی اکائیاں مزید غیر مطمئن رہنے لگیں ۔حافظ حسین احمد نے کہا کہ 74 سال گزرنے اور وطن عزیز کی اکثریت کی اقلیت سے علیحدگی کی کاری زخم کھانے کے بعد بھی ہم کسی ایک حتمی نظام پر مکمل عملدرآمد نہ کرسکے بلکہ اب بھی اس حوالے سے نت نئے تجربات کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر آنے والے حکمران طبقہ اور پارٹی کو اپنے غیر آئینی اقتدار کی توسیع اور مضبوطی کے لیے بظاہر کوئی نہ کوئی آئینی پشتی بان کی ضرورت رہی ہے ۔اس کے لیے پارلیمنٹ سے ایل ایف او کی منظوری اور سپریم کورٹ سے نظریہ ضرورت کا انوکھا اور اچھوتا فیصلہ کرا کر عالمی سطح پر پاکستان کے نظام انصاف کا ایسا ریکارڈ قائم کیا گیا جسے اور کوئی توڑ ہی نہیں سکتا۔