جماعت اسلامی کا 12فروری سے حقوق کراچی تحریک کے نئے مرحلے‘4مارچ سے حقوق کراچی کارواں کا اعلان
کراچی کے 90فیصد مینڈیٹ لینے والی حکمران پارٹیاں کراچی کو پانی دینے پر تیار نہیں، حافظ نعیم الرحمن کی پریس کانفرنس
سابقہ طریقے پر ہی دوبادہ مردم شماری کرا کے کراچی کی آبادی پر شب خون مارنے اور حقیقی نمائندگی کم کرنے کی سازش کی جارہی ہے
اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں سندھ حکومت کے لیے سوالیہ نشان، وزیر اعلیٰ جامعات کے مسائل کو حل کروائیں، امیر جماعت کا مطالبہ
صنعتوں کی صورتحال خراب ہے، گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بر آمدی آرڈرز منسوخ ہو رہے ہیں
کراچی (ویب نیوز ) حق دو کراچی تحریک کے قائد اور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے پیر کو ادارہ نور حق میں پریس کانفرنس میں اعلان کیا ؎ہے کہ 12فروری سے حقوق کراچی تحریک کے نئے مرحلے کا آغاز کیا جائے گا جس میں ہر یونین کونسل میں کارنر میٹنگز، عوام سے گھرگھر جاکر ملاقاتیں کی جائیں گی اور 4 مارچ سے ایک عظیم الشان ”حقوق کراچی کارواں“نکالا جائے گا جو ہر ضلع میں جائے گا اور اس میں پورے شہر سے لاکھوں عوام شرکت کریں گے۔ کراچی سے نوے فیصد مینڈیٹ لینے والی حکمران جماعتیں پی ٹی آئی،ایم کیو ایم اوروفاقی حکومت دریائے سندھ سے کراچی کو صرف ایک فیصد بھی پانی دینے پر تیار نہیں،نئی مردم شماری کے نام پر وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد مردم شماری پرانے طریقے کے تحت ہی کراکے کراچی کی آبادی پر شب خون مارنے اور حقیقی نمائندگی کو ایک بار پھر کم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔شہر میں مسلح ڈکیتیوں اور اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں سندھ حکومت، پولیس اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں، جامعہ کراچی میں اساتذہ کی ہڑتال اور تعلیمی تعطل کو ایک ہفتہ ہو گیا کوئی سننے والا نہیں۔11فروری کوصوبائی کابینہ کے اجلاس میں توقع ہے کہ سندھ حکومت اپنے عہد کی پاسداری کرے گی اور فوری طور پر وہ تمام شقیں جو معاہدے میں طے کی گئی ہیں وہ واپس لی جائیں گی۔ معاہدے پر عمل درآمد اوراسے آگے بڑھانے کے لیے صوبائی حکومت سے ہمارا رابطہ بھی ہے اور کچھ دن پہلے وزیر اعلی اپنی ٹیم کے ساتھ یہاں پر تشریف لائے تھے اور انہوں نے واضح طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ جتنی چیزیں بھی طے ہوئیں ہیں ان سب پر عمل درآمد کیا جائے گا اور اس سے پہلے کابینہ کے اجلاس میں یا اسمبلی میں معاہدے کی دیگر شقوں پرعملدرآمد کے لیے جتنی بھی ترامیم کی ضرورت ہے سب بروئے کار لائی جائیں گی معاہدے میں جن معاملات پر اتفاق نہیں ہوسکا ان پر مذاکرات جاری ہیں اب چونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آگیا ہے تو ہم صوبائی حکومت سے کہتے ہیں کہ وہ تمام محکموں کو اب Devolveکردے اور قانونی موشگافیوں کی بجائے فیصلے کی سپرٹ کو دیکھیں۔ فیصلے میں ایک چیز کی کمی محسوس ہوئی وہ یہ کہ سپریم کورٹ ہدایت پارلیمنٹ کو دیتی کہ آئین میں باقاعدہ ایک چیپٹربلدیاتی حکومت کے حقوق و فرائض اور ان تمام تر ذمہ داریوں کے حوالے سے متعین کردے تو یہ بہتر ہوجاتا اور پارٹیاں پابند ہوجاتی بشمول پنجاب،کے پی کے اور بلوچستان میں جن کی حکومتیں ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ پورے ملک میں اس بات کی ضرورت ہے کہ آئین میں ترمیم کے ذریعے ایک الگ چیپٹر بنایا جائے اور شہری حکومتوں کے اختیارات حقوق فرائض کا باقاعدہ پورا نظام واضح کیا جائے۔۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی صورتحال خراب ہونے کی ایک اور بڑی وجہ متنازعہ مردم شماری ہے 2017میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق کراچی سے ملحق دیہی آبادی کو گیارہ لاکھ جبکہ شہری آبادی کو ایک کروڑ 49 لاکھ گنا گیا اس وقت نادرا سمیت مختلف رپورٹس اور سرویز کے مطابق کراچی کی آبادی سوا دو اورڈھائی کروڑ سے کسی صورت کم نہیں تھی اوراس وقت شہر کی آبادی سوا تین کروڑ سے کم نہیں ہے جب یہ جعلی مردم شماری ہوئی تب نواز لیگ کی حکومت تھی اس وقت مطالبہ کیا گیا تھا کہ پانچ فیصد بلاکس ری اوپن کیے جائیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور اس کے بعد پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت جس کا موقف تھا کہ یہ مردم شماری غلط ہے اس نے بھی ساڑھے تین سال کاعرصہ گزاردیا لیکن کچھ نہیں کیا بلکہ جعلی مردم شماری کو ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر نوٹیفائی کروادیا اس لیے عوام ان دونوں حکمران پارٹیوں سے سوال کرتے ہیں، انہوں نے کراچی کی مردم شماری درست کرنے کے لیے کیا کیا؟ اور اب اس سے بڑھ کر یہ ظلم اور وار کیا گیا ہے،ماضی کے جعلی طریقے کارکو اس بار بھی مردم شماری کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور اس کوکابینہ میں منظور کرواکر قانونی حیثیت دے دی گئی ہے،جس کے مطابق نادرا کی مدد سے لوگوں کا آبائی پتے پر اندراج کیا جائے گا حالانکہ مردم شماری کا قاعدہ اور بین الاقوامی معیار اور اقوام متحدہ کی گائیڈ لائن موجود ہے کہ جو شخص جہاں موجود ہوگا وہیں اس کا اندراج ہوگا اور یہ شب خون کراچی پر وہی جماعتیں ماررہی ہیں جس نے شہر سے بھاری مینڈیٹ لیا ہے یعنی پی ٹی آئی اور ایم کیوایم 17سال سے شہر میں پانی کی مقدار میں اضافہ نہیں ہوا کے تھری منصوبہ جو نعمت اللہ خان نے مکمل کیا اس کے بعد سے اب تک پانی کا کوئی نیا منصوبہ نہیں بنایا گیا کے فور منصوبہ کا آغاز ہوامختلف رکاوٹوں اور تاخیر کی وجہ سے اب تک پچیس چھبیس ارب روپے ضائع ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے منصوبہ واپڈا کی مددسے بنانے کا اعلان کیا اورکہا کہ 650ملین گیلن پانی فراہمی کا منصوبہ بنائیں گے پھر وفاقی حکومت نے یہ منصوبہ سی ڈی ڈبلیوپی اور اس کے بعد ایکنک کے اجلاس میں فیصلہ کیاکہ یہ منصوبہ 250ملین گیلن پانی کی فراہمی کا ہوگا۔ اس طرح K-4کو ایک تہائی کم کر دیا گیا جو کراچی کے عوام کے لیے سراسر ظلم و زیادتی ہے۔انہو ں نے کہا کہ آجکل کراچی یونیورسٹی سمیت صوبے کی جامعات میں صوبائی حکومت کی براہ راست مداخلت پر اساتذہ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ایک ہفتے سے تعلیم و تدریس کا سلسلہ معطل ہے اساتذہ ہڑتال کررہے ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں بیشتر جامعات بلکہ کراچی یونیورسٹی میں بھی ڈھائی سال سے کوئی مستقل وائس چانسلر نہیں ہے عبوری طریقے کار سے کا م چلایا جارہا ہے سوا لاکھ سے زیادہ طلبہ و طالبات انٹر پاس کرتے ہیں لیکن مزید تعلیم کے لیے اداروں میں سولہ ہزار داخلوں سے زیادہ گنجائش نہیں ہے اور اس کے ساتھ ایک اور ظلم یہ ہوا کہ ڈگری پروگرام جو عام کالجز سے معمو ل کے مطابق کرلیتے تھے اب اسے چار سالہ پروگرام بنادیا ہے جس کی وجہ سے پہلے بی اے،بی کام میں پچاس ہزار انرولمنٹ ہوتے تھے جو کم ہوکر صرف پانچ سے دس ہزار رہ گئے ہیں ہم پوچھتے ہیں کہ یہ بقایا چالیس ہزار طلبہ وطالبات کہاں جائیں؟ایسا لگتا ہے کہ کوئی جان بوجھ کر تعلیمی نظام کو برباد کرنا چاہتا ہے میں وزیر اعلی سے واضح طور پر مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ تعلیم سے متعلق معاملات و مسائل کو خود دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں امن و امان کی صورتحال بہت خراب ہے ا سٹریٹ کرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے،کراچی میں مجرم کھلے عام دندناتے پھررہے ہیں رینجرز اور پولیس انہیں کنٹرول کرنے میں ناکام نظرآرہی ہے ماضی میں جب جرائم کم ہوئے تو عوام نے رینجرز کے کردار کو سراہا اور اب جب وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے تو لوگ انہی سے سوال کریں گے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ شہر میں گیس کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، فروری کے مہینے میں سردی کی بھی شدت ختم ہوگئی لیکن گیس کا بحران بدستور جاری ہے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں اس وقت صنعتوں کی صورتحال سب سے خراب ہے گیس فراہم نہ ہونے کی وجہ سے برآمدادی آرڈرز منسوخ ہورہے ہیں یا پیداواری عمل مسلسل تاخیر کا شکارہے حکومت کی جانب سے برآمدی صنعتوں کو گیس کی فراہمی کا دعوی سراسر غلط ہے کیونکہ ان کا انحصار دیگر انڈسٹریز پر ہوتا ہے جہاں گیس کی فراہمی معطل ہے کراچی پاکستان کی کل برآمدات میں 54فیصد حصہ شامل کرتاہے جس میں ٹیکسٹائل انڈسٹری نمایاں ہے ایسی صورتحال میں صرف صنعت ہی نہیں مجموعی معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان حالات میں کے الیکٹرک کوجو حکومتوں کی محبوب اور ان کے لیے فنڈنگ کرتے ہیں اس کو ان کی ضرورت کے مطابق مسلسل گیس فراہم کی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ حکمران حالات بہتر بنانے کے بجائے ایک ارب ڈالر امداد کے نام پہ بھیک مانگنے کے لیے مختلف ممالک سے رابطہ کررہے ہیں اس کے لیے اسٹیٹ بینک کو نہ صرف گروی رکھ دیا گیا ہے بلکہ آئی ایم ایف کے ماتحت کر کے حکمران اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے قومی وقار و عزت کا سودا کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گرین لائن منصوبہ جو پہلے ہی تاخیر کا شکار تھا،ساڑھے تین سال کے بعد جب اس منصوبے کا آغاز کیا گیا تو ابتدا میں لوگوں نے اس پر سفر شروع کیا لیکن ٹریک اور دیگر سہولیات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ ایک خراب مثال بن کررہ گیا ہے۔اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، انجینئر سلیم اظہر، سیکریٹری کراچی منعم ظفر خان اور سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری بھی موجود تھے۔#
سابقہ طریقے پر ہی دوبادہ مردم شماری کرا کے کراچی کی آبادی پر شب خون مارنے اور حقیقی نمائندگی کم کرنے کی سازش کی جارہی ہے
اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں سندھ حکومت کے لیے سوالیہ نشان، وزیر اعلیٰ جامعات کے مسائل کو حل کروائیں، امیر جماعت کا مطالبہ
صنعتوں کی صورتحال خراب ہے، گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بر آمدی آرڈرز منسوخ ہو رہے ہیں
کراچی (ویب نیوز ) حق دو کراچی تحریک کے قائد اور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے پیر کو ادارہ نور حق میں پریس کانفرنس میں اعلان کیا ؎ہے کہ 12فروری سے حقوق کراچی تحریک کے نئے مرحلے کا آغاز کیا جائے گا جس میں ہر یونین کونسل میں کارنر میٹنگز، عوام سے گھرگھر جاکر ملاقاتیں کی جائیں گی اور 4 مارچ سے ایک عظیم الشان ”حقوق کراچی کارواں“نکالا جائے گا جو ہر ضلع میں جائے گا اور اس میں پورے شہر سے لاکھوں عوام شرکت کریں گے۔ کراچی سے نوے فیصد مینڈیٹ لینے والی حکمران جماعتیں پی ٹی آئی،ایم کیو ایم اوروفاقی حکومت دریائے سندھ سے کراچی کو صرف ایک فیصد بھی پانی دینے پر تیار نہیں،نئی مردم شماری کے نام پر وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد مردم شماری پرانے طریقے کے تحت ہی کراکے کراچی کی آبادی پر شب خون مارنے اور حقیقی نمائندگی کو ایک بار پھر کم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔شہر میں مسلح ڈکیتیوں اور اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں سندھ حکومت، پولیس اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں، جامعہ کراچی میں اساتذہ کی ہڑتال اور تعلیمی تعطل کو ایک ہفتہ ہو گیا کوئی سننے والا نہیں۔11فروری کوصوبائی کابینہ کے اجلاس میں توقع ہے کہ سندھ حکومت اپنے عہد کی پاسداری کرے گی اور فوری طور پر وہ تمام شقیں جو معاہدے میں طے کی گئی ہیں وہ واپس لی جائیں گی۔ معاہدے پر عمل درآمد اوراسے آگے بڑھانے کے لیے صوبائی حکومت سے ہمارا رابطہ بھی ہے اور کچھ دن پہلے وزیر اعلی اپنی ٹیم کے ساتھ یہاں پر تشریف لائے تھے اور انہوں نے واضح طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ جتنی چیزیں بھی طے ہوئیں ہیں ان سب پر عمل درآمد کیا جائے گا اور اس سے پہلے کابینہ کے اجلاس میں یا اسمبلی میں معاہدے کی دیگر شقوں پرعملدرآمد کے لیے جتنی بھی ترامیم کی ضرورت ہے سب بروئے کار لائی جائیں گی معاہدے میں جن معاملات پر اتفاق نہیں ہوسکا ان پر مذاکرات جاری ہیں اب چونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آگیا ہے تو ہم صوبائی حکومت سے کہتے ہیں کہ وہ تمام محکموں کو اب Devolveکردے اور قانونی موشگافیوں کی بجائے فیصلے کی سپرٹ کو دیکھیں۔ فیصلے میں ایک چیز کی کمی محسوس ہوئی وہ یہ کہ سپریم کورٹ ہدایت پارلیمنٹ کو دیتی کہ آئین میں باقاعدہ ایک چیپٹربلدیاتی حکومت کے حقوق و فرائض اور ان تمام تر ذمہ داریوں کے حوالے سے متعین کردے تو یہ بہتر ہوجاتا اور پارٹیاں پابند ہوجاتی بشمول پنجاب،کے پی کے اور بلوچستان میں جن کی حکومتیں ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ پورے ملک میں اس بات کی ضرورت ہے کہ آئین میں ترمیم کے ذریعے ایک الگ چیپٹر بنایا جائے اور شہری حکومتوں کے اختیارات حقوق فرائض کا باقاعدہ پورا نظام واضح کیا جائے۔۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی صورتحال خراب ہونے کی ایک اور بڑی وجہ متنازعہ مردم شماری ہے 2017میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق کراچی سے ملحق دیہی آبادی کو گیارہ لاکھ جبکہ شہری آبادی کو ایک کروڑ 49 لاکھ گنا گیا اس وقت نادرا سمیت مختلف رپورٹس اور سرویز کے مطابق کراچی کی آبادی سوا دو اورڈھائی کروڑ سے کسی صورت کم نہیں تھی اوراس وقت شہر کی آبادی سوا تین کروڑ سے کم نہیں ہے جب یہ جعلی مردم شماری ہوئی تب نواز لیگ کی حکومت تھی اس وقت مطالبہ کیا گیا تھا کہ پانچ فیصد بلاکس ری اوپن کیے جائیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور اس کے بعد پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت جس کا موقف تھا کہ یہ مردم شماری غلط ہے اس نے بھی ساڑھے تین سال کاعرصہ گزاردیا لیکن کچھ نہیں کیا بلکہ جعلی مردم شماری کو ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر نوٹیفائی کروادیا اس لیے عوام ان دونوں حکمران پارٹیوں سے سوال کرتے ہیں، انہوں نے کراچی کی مردم شماری درست کرنے کے لیے کیا کیا؟ اور اب اس سے بڑھ کر یہ ظلم اور وار کیا گیا ہے،ماضی کے جعلی طریقے کارکو اس بار بھی مردم شماری کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور اس کوکابینہ میں منظور کرواکر قانونی حیثیت دے دی گئی ہے،جس کے مطابق نادرا کی مدد سے لوگوں کا آبائی پتے پر اندراج کیا جائے گا حالانکہ مردم شماری کا قاعدہ اور بین الاقوامی معیار اور اقوام متحدہ کی گائیڈ لائن موجود ہے کہ جو شخص جہاں موجود ہوگا وہیں اس کا اندراج ہوگا اور یہ شب خون کراچی پر وہی جماعتیں ماررہی ہیں جس نے شہر سے بھاری مینڈیٹ لیا ہے یعنی پی ٹی آئی اور ایم کیوایم 17سال سے شہر میں پانی کی مقدار میں اضافہ نہیں ہوا کے تھری منصوبہ جو نعمت اللہ خان نے مکمل کیا اس کے بعد سے اب تک پانی کا کوئی نیا منصوبہ نہیں بنایا گیا کے فور منصوبہ کا آغاز ہوامختلف رکاوٹوں اور تاخیر کی وجہ سے اب تک پچیس چھبیس ارب روپے ضائع ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے منصوبہ واپڈا کی مددسے بنانے کا اعلان کیا اورکہا کہ 650ملین گیلن پانی فراہمی کا منصوبہ بنائیں گے پھر وفاقی حکومت نے یہ منصوبہ سی ڈی ڈبلیوپی اور اس کے بعد ایکنک کے اجلاس میں فیصلہ کیاکہ یہ منصوبہ 250ملین گیلن پانی کی فراہمی کا ہوگا۔ اس طرح K-4کو ایک تہائی کم کر دیا گیا جو کراچی کے عوام کے لیے سراسر ظلم و زیادتی ہے۔انہو ں نے کہا کہ آجکل کراچی یونیورسٹی سمیت صوبے کی جامعات میں صوبائی حکومت کی براہ راست مداخلت پر اساتذہ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ایک ہفتے سے تعلیم و تدریس کا سلسلہ معطل ہے اساتذہ ہڑتال کررہے ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں بیشتر جامعات بلکہ کراچی یونیورسٹی میں بھی ڈھائی سال سے کوئی مستقل وائس چانسلر نہیں ہے عبوری طریقے کار سے کا م چلایا جارہا ہے سوا لاکھ سے زیادہ طلبہ و طالبات انٹر پاس کرتے ہیں لیکن مزید تعلیم کے لیے اداروں میں سولہ ہزار داخلوں سے زیادہ گنجائش نہیں ہے اور اس کے ساتھ ایک اور ظلم یہ ہوا کہ ڈگری پروگرام جو عام کالجز سے معمو ل کے مطابق کرلیتے تھے اب اسے چار سالہ پروگرام بنادیا ہے جس کی وجہ سے پہلے بی اے،بی کام میں پچاس ہزار انرولمنٹ ہوتے تھے جو کم ہوکر صرف پانچ سے دس ہزار رہ گئے ہیں ہم پوچھتے ہیں کہ یہ بقایا چالیس ہزار طلبہ وطالبات کہاں جائیں؟ایسا لگتا ہے کہ کوئی جان بوجھ کر تعلیمی نظام کو برباد کرنا چاہتا ہے میں وزیر اعلی سے واضح طور پر مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ تعلیم سے متعلق معاملات و مسائل کو خود دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں امن و امان کی صورتحال بہت خراب ہے ا سٹریٹ کرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے،کراچی میں مجرم کھلے عام دندناتے پھررہے ہیں رینجرز اور پولیس انہیں کنٹرول کرنے میں ناکام نظرآرہی ہے ماضی میں جب جرائم کم ہوئے تو عوام نے رینجرز کے کردار کو سراہا اور اب جب وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے تو لوگ انہی سے سوال کریں گے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ شہر میں گیس کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، فروری کے مہینے میں سردی کی بھی شدت ختم ہوگئی لیکن گیس کا بحران بدستور جاری ہے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں اس وقت صنعتوں کی صورتحال سب سے خراب ہے گیس فراہم نہ ہونے کی وجہ سے برآمدادی آرڈرز منسوخ ہورہے ہیں یا پیداواری عمل مسلسل تاخیر کا شکارہے حکومت کی جانب سے برآمدی صنعتوں کو گیس کی فراہمی کا دعوی سراسر غلط ہے کیونکہ ان کا انحصار دیگر انڈسٹریز پر ہوتا ہے جہاں گیس کی فراہمی معطل ہے کراچی پاکستان کی کل برآمدات میں 54فیصد حصہ شامل کرتاہے جس میں ٹیکسٹائل انڈسٹری نمایاں ہے ایسی صورتحال میں صرف صنعت ہی نہیں مجموعی معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان حالات میں کے الیکٹرک کوجو حکومتوں کی محبوب اور ان کے لیے فنڈنگ کرتے ہیں اس کو ان کی ضرورت کے مطابق مسلسل گیس فراہم کی جارہی ہے انہوں نے کہا کہ حکمران حالات بہتر بنانے کے بجائے ایک ارب ڈالر امداد کے نام پہ بھیک مانگنے کے لیے مختلف ممالک سے رابطہ کررہے ہیں اس کے لیے اسٹیٹ بینک کو نہ صرف گروی رکھ دیا گیا ہے بلکہ آئی ایم ایف کے ماتحت کر کے حکمران اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے قومی وقار و عزت کا سودا کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گرین لائن منصوبہ جو پہلے ہی تاخیر کا شکار تھا،ساڑھے تین سال کے بعد جب اس منصوبے کا آغاز کیا گیا تو ابتدا میں لوگوں نے اس پر سفر شروع کیا لیکن ٹریک اور دیگر سہولیات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ ایک خراب مثال بن کررہ گیا ہے۔اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، انجینئر سلیم اظہر، سیکریٹری کراچی منعم ظفر خان اور سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری بھی موجود تھے۔#