ایون فیلڈ ریفرنس،مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ کوجعلی نہیں پری ڈیٹڈ کہا جا سکتا ہے ۔ہائیکورٹ
اگر ایون فیلڈ ریفرنس میں ثبوت موجود نہ ہوئے تو پانامہ کیس ایک طرف رہے گا ہمارا فیصلہ کچھ اور ہو گا
سپریم کورٹ کی آبزرویشنز آئین کے آرٹیکل 184/3 میں تھیں ہم ٹرائل کا ریکارڈ دیکھیں گے
مریم نواز کے وکیل صرف یہ ثابت کر دیں نیب کیس ثابت نہیں کر سکا توباقی کسی چیز کی ضرورت نہیں، دوران سماعت ریمارکس
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزاکے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ کوجعلی نہیں پری ڈیٹڈ کہا جا سکتا ہے ۔اگر ایون فیلڈ ریفرنس میں ثبوت موجود نہ ہوئے تو پانامہ کیس ایک طرف رہے گا ہمارا فیصلہ کچھ اور ہو گا، لیکن اگر ثبوت موجود ہوئے تو بھی یہ عدالت اپنا فیصلہ آزادانہ دے گی، سپریم کورٹ کی آبزرویشنز ابتدائی نوعیت کی تھیں شواہد دیکھ کر نہیں، سپریم کورٹ کی آبزرویشنز آئین کے آرٹیکل 184/3 میں تھیں ہم ٹرائل کا ریکارڈ دیکھیں گے، ہم نے دیکھنا ہے نیب اپنا کیس شواہد سے ثابت کر سکا یا نہیں،مریم نواز کے وکیل صرف یہ ثابت کر دیں نیب کیس ثابت نہیں کر سکا توباقی کسی چیز کی ضرورت نہیں، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اخترکیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف مریم نواز اور ان کے خاوند کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے دائر اپیلوں کی سماعت کا آغاز کیا تو مریم نواز کے وکیل عرفان قادر نے موقف اپنایا کہ گذشتہ سماعتوں کا کچھ بیک گراؤنڈ بتانا چاہتا ہوں،عرفان قادر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میں نے کچھ ابتدائی دلائل دیئے تھے پھر نیب نے بھی بات کی تھی، جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ نیب نے آپ کی نئی درخواست پر جواب جمع کرا دیا تھا ،، عرفا قادر نے بتیا کہ انہوں نے وہ جواب دیکھ لیا ہے عدالت جیسے کہے کارروئی آگے بڑھاتے ہیں اگر عدالت سمجھتی ہے تو میں ایک ہی بار دلائل مکمل کر لیتا ہوں، اس دوران پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر نے کہاکہ عرفان قادر اپنے دلائل دے لیں پھر جواب ہم دے دیں گے، اس دوران ایون فیلڈ اپیل میں نیب وکلا کیساتھ کھڑی خاتون وکیل کی موجودگی معمہ بن گئی ، پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر کا کہنا تھا کہ یہ خاتون ہماری سائیڈ پر کھڑی ہورہی ہیں لیکن نیب کا حصہ نہیں ہیں،عدالت نے خاتون سے استفسار کیاکہ آپ کے پاس نیب کا پاور آف اٹارنی موجود ہے؟خاتون وکیلنے جواب دیا کہ جی میرا بیان حلفی فائل کا حصہ ہے، جس پر عدالت نے متنبع کیا کہ آپ کا بیان اگر درست نہ نکلا تو کیس بار کونسل کو بھیجیں گے،آپ ڈی جی نیب سے نیا پاور آف اٹارنی لے آئیں، عدالت نے خاتون وکیل کو روسٹرم سے ہٹ کر بیٹھ جانے کی ہدایت کردی جس پر وہ خاتون بیٹھ گئیں ۔مریم نواز کے وکیل عرفان قادر نے دلائل کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ میں سب سے پہلے اس سارے کیس میں بے ضابطگیاں بتاؤں گا، نئی درخواست ہی ہم نے ٹرائل کی غیر شفافیت کی دی تھی ، پانامہ کیس سے متعلق معاملہ جوڈیشل اور آئینی تاریخ کی روشنی میں بتاؤں گا،بتاوں گا کیا موجودہ عدلیہ سے وہی غلطیاں نہیں ہوئی جو ماضی میں ہوئیں، انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ میں عمران خان نیازی کی درخواست پر ہوئی کارروائی بھی بتاؤں گا،نیب نے اس کیس میں بنیادی جزئیات ہی پوری نہیں کیں، اثاثے کی اصل قیمت اور ذرائع پہلے بتائے ہی نہیں گئے ، اس بات پر تو عدالت چاہے تو مریم نواز کو آج ہی بری کر سکتی ہے، نیب آرڈیننس کے سیکشن نائن اے 5 کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ثبوت موجود نہ ہوئے تو پانامہ کیس ایک طرف رہے گا ہمارا فیصلہ کچھ اور ہو گا، لیکن اگر ثبوت موجود ہوئے تو بھی یہ عدالت اپنا فیصلہ آزادانہ دے گی، سپریم کورٹ کی آبزرویشنز ابتدائی نوعیت کی تھیں شواہد دیکھ کر نہیں، سپریم کورٹ کی آبزرویشنز 184/3 میں تھیں ہم ٹرائل کا ریکارڈ دیکھیں گے، ہم نے دیکھنا ہے نیب اپنا کیس شواہد سے ثابت کر سکا یا نہیں، آپ صرف یہ ثابت کر دیں نیب کیس ثابت نہیں کر سکا باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ نے نیب شواہد پر بات کو اپنے دلائل میں آٹھویں نمبر پر رکھا ہے آپ اس پوائنٹ کو پہلے نمبر پر رکھیں ،عدالت کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے وکیل پہلے یہی دکھا دیں کیس نہیں بنتا تھا باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی اس دوران عدالت نے مریم نواز کے وکیل عرفان قادر کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کا نام لینے سے روک دیاعدالت کا کہنا تھا کہ آپ نے کہنا ہے تو ٹرائل کورٹ کہیں ، جج کا نام نہ لیں، ، عرفان قادر نے کہاکہ ایک خط کوٹرائل کورٹ نے بنیادی شہادت کے طور پر لیا، ایک ایم ایل اے کے جواب میں آیا خط بنیادی ثبوت ہے، احتساب عدالت نے کہا مریم نواز اب اس خط کے جواب میں اپنا ثبوت لائیں،جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیاکہ کیا یہ ایم ایل اے ریکارڈ پر موجود ہے؟عرفان قادر نے جواب دیا کہ جی ہاں ایم ایل اے ریکارڈ پر تو موجود ہے۔اس دوران عدالت نے نیب کی پراسیکیوٹر جنرل سے سوال کیا کہ ایک خط برطانیہ سے آیا وہاں کے کسی بندے نے آکر جمع کرایا تھا یا نہیں؟ اگر بیفیشل مالک ثابت بھی ہو جائیں توپھر مریم نواز کا کردار کیا ہوگا؟اگر والد نے جائیداد غیر قانونی بھی بنا کر بیٹے کو دی تو کیا بیٹی قصور وار ہوگی؟ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جواب دیا کہ جب اس نکتے پر ہم پہنچیں گے تو اس پر بھی بات کریں گے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ ہم وہاں آگئے ہیں ، آج کوئی التوا نہیں ملے گا، میں بہت واضح ہوں کیوں وقت ضائع کریں ہم،نیب پہلے ہمارے سوالات کا جواب دے پھر مریم نواز کے وکیل کو سنیں گے، پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر نے جواب دیا کہ مریم نواز کا دعوی تھی وہ اس جائیداد کی ٹرسٹی ہیں لیکن ہم نے شواہد سے ثابت کیا کہ وہ ٹرسٹی نہیں بینیفشل مالک ہیں، نیب نے اس ٹرسٹ ڈیڈ میں جعلسازی ثابت کی ہے،عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر وہ جعلسازی تھی تو کیا وہ سپریم کورٹ کے سامنے تھی یا جے آئی ٹی کے سامنے؟ نیب پراسیکیوٹرکا کہنا تھاکہ وہ ٹرسٹ ڈیڈ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی پھر جے آئی ٹی کے سامنے تصدیق کی، اس جعلسازی کیخلاف الگ سے کارروائی اپیلوں کے بعد ہونی ہے، عدالت نے سوال اٹھایاکہ جب آپ ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی کہتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے؟ جسٹس عامر فاروق نے سوال کیاکہ ڈیڈ کا فونٹ کیا تھا اس پر بعد میں آتے ہیں ، کیا کہیں سے ثابت ہوا کہ مریم نواز کے اس ڈیڈ پر دستخط نہیں؟ نیب پراسیکیوٹر کاکہنا تھا کہ نہیں ایسا کہیں ثابت نہیں ہوا ، جسٹس عامر فاروق نے سوال کیاکہ کیا کہیں یہ ثابت ہوا اس پر حسین نواز کے دستخط نہیں؟ ، نیب پراسیکیوٹرنے جواب دیا کہ نہیں ایسا بھی کہیں ثابت نہیں ہوا ،جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اگر ایسا ہے تو پھر ڈاکومنٹ جعلی نہیں، پری ڈیٹڈ کہلائے گا ،عدالت کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ پر دونوں دستخط کرنے والے آج بھی کہتے ہیں یہ ان کی ڈیڈ ہے،کیپٹن صفدر کو صرف اس بات پر سزا ہوئی کہ یہ ان دستخطوں کے گواہ تھے،عدالت نے مریم نواز کے وکیل عرفان قادر سے سوال کیاکہ کیا ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلقہ دستاویزات آپ نے دیکھی ہیں؟تو وکیل کا کہنا تھاکہ انہوں نے ابھی یہ دستاویزات نہیں دیکھیں، جس پر عدالت نے عرفان قادر کو مکمل پیپر فائلز پڑھ کر آنے کی ہدایت کرتے ہوئے ایون فیلڈ اپیلوں پر سماعت 17 فروری تک ملتوی کردی۔ سماعت کے دورا ن مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے دوران سماعت کمرہ عدالت میں نماز شروع کر دی ، مریم نوازنے کرسی پر بیٹھے ہی نماز پڑھی ۔