اپوزیشن کی جماعتیں اب آپس میں ٹی20 سیریز کھیل رہی ہیں: حافظ حسین احمد
تحریک عدم اعتماد کے ساتھ لانگ مارچ کی باتوں سے لگتا ہے کہ انہیں خود عدم اعتماد کی کامیابی پر یقین نہیں
پی ڈی ایم کی پالیسی اور بیانیہ میں تبدیلی لندن سے ہورہی ہے جبکہ نمائشی سربراہ سے صرف انگوٹھا لگوایا جاتا ہے
معاملہ فروٹ چاٹ، چنا چاٹ کے بعد تھوک چاٹ پر پہنچ چکا ہے، ثمرات مارچ میں نہیں نومبرمیں ملیں گے
کوئٹہ/کراچی/اسلام آباد/لاہور(ویب نیوز ) جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سینئر رہنما سابق سینیٹر حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں اب آپس میں ٹی20 سیریز کھیل رہی ہے، تحریک عدم اعتماد کے ساتھ لانگ مارچ کی باتوں سے لگتا ہے کہ انہیں خود عدم اعتماد کی کامیابی پر یقین نہیں، پی ڈی ایم کی پالیسی اور بیانیہ میں تبدیلی لندن سے ہورہی ہے جبکہ نمائشی سربراہ سے صرف انگوٹھا لگوایا جاتا ہے، معاملہ فروٹ چاٹ، چنا چاٹ کے بعد تھوک چاٹ پر پہنچ چکا ہے۔ اتوار کے روز اپنی رہائشگاہ جامعہ مطلع العلوم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ حسین احمد نے مزید کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں مسلم لیگ ن اور ان کی زرخرید جماعتوں نے اپنے اختیارات نواز شریف، پی پی اور اے این پی نے آصف زرداری، مسلم لیگ ق نے پرویز الٰہی، ترین گروپ نے جہانگیر ترین اور تحریک انصاف نے عمران خان کو اختیارات دئیے ہیں لیکن اصل اختیار جس ”فرد“ کے پاس ہے فیصلہ بھی اسی کی مرضی سے ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جماعتیں اب آپس میں ٹی 20سیریز کھیل رہی ہیں اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر میچ فکسنگ ہورہی ہے اب موسم بدل رہا ہے فروٹ چاٹ اور چنا چاٹ کے بعد معاملہ تھوک چاٹ پر پہنچ گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا”لانگ مارچ“ اب ”لونگ مارچ“ ہوگا جہاں تک لانگ مارچزاور عدم اعتماد کا تعلق ہے ناقابل فہم ہے اپوزیشن اگر تحریک عدم اعتماد میں سنجیدہ ہے تو مارچ پر کیوں زور دیا جارہا ہے اگر مارچ کرنا ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے ہ انہیں خود عدم اعتماد پر یقین نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مارچ میں ان کے اثرات رونما نہیں ہونگے ماضی کی طرح اس کے ثمرات نومبر میں ہونگے اور پہلے بھی ایسے ہوا ہے کہ نواز شریف نے پہلے جنرل باجوہ کے خلاف بغاوت کی باتیں کی اور پھر اسی جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے لیے اپنے ممبران کو ووٹ دینے کا کہا اب معاملات انہی پرانی فائلوں کے تحت طے ہورہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی پالیسی اور بیانیہ کی تبدیلی لندن سے نواز شریف نے کی ہے اور پھر شہباز شریف نے آصف زرداری اور بلاول بھٹوزرداری کو دعوت دی اور حتمی فیصلہ پھر نواز شریف نے کیا اس میں پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن اور جنرل سیکریٹری شاہد خاقان عباسی کو نظر انداز کیا گیا اور پھر پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں ان فیصلوں پر انگوٹھا لگوایا گیا اب طرفہ تماشا یہ ہے کہ جے یو آئی ف کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس 22فروری کو طلب کرکے اس سے بھی اب انگوٹھا لگوایا جائے گا اور یہی ہمارا موقف تھا کہ فیصلے فرد واحد کرتا ہے اور اداروں سے اسے انگوٹھا لگوایا جاتا ہے جس کی زندہ مثال 22فروری کا اجلاس ہے۔