گستاخانہ مواد کی تشہیر۔اسلام آباد ہائیکورٹ کا درخواستوں پر کاروائی کے لئے ایف آئی اے کو فؤکل پرسن کی تعیناتی کا حکم
ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے نے ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے ایاز خان کو فؤ کل پرسن تعینات کر دیا۔عدالت کا فؤکل پرسن کو پٹیشنرز کے اعتراضات دور کرنے کی ہدایت
ایف آئی اے کے فؤکل پرسن آئندہ سماعت پر رپورٹ جمع کرائیں۔اگر پٹیشنرز کے اعتراضات کا ازالہ نہ ہوا تو عدالت معاملات دیکھے گی۔۔۔۔۔۔جسٹس عامر فاروق
گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف درخواستوں کے متعلق رپورٹ جمع۔17 درخواستوں میں سے سات درخواستوں کا اصل ریکارڈ غائب ہے۔۔۔ایف آئی اے کا اعتراف
توہین رسالت و توہین مذہب کے مرتکب زیر حراست ملزمان کے رابطے پاکستان سے باہر بھی ثابت ہوئے۔ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے سائبر کرائم کا عدالت میں بیان
اسلام آباد (ویب نیوز )
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوشل میڈیا پر جاری بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف درخواستوں پر کاروائی کے لئے ایف آئی اے کو فؤکل پرسن کی تعیناتی کا حکم دے دیا۔عدالت عالیہ نے ہدایت کی ہے کہ ایف آئی اے کے فؤکل پرسن پٹیشنرز کے تمام اعتراضات دور کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر رپورٹ جمع کرائیں۔ایف آئی اے نے ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ایاز خان کو عدالتی حکم پر فؤکل پرسن تعینات کر دیا۔ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث زیر حراست سات ملزمان کا ٹرائل جاری ہے۔ملزمان کے رابطے بیرون ملک بھی ثابت ہوئے ہیں۔اس قدر منظم انداز میں گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم چلائی جارہی ہے کہ ملزمان کے اہلخانہ بھی گرفتاری تک ملزم کے جرم سے لاعلم ہوتے ہیں۔ایف آئی اے نے عدالت عالیہ میں اعتراف کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف 17 درخواستوں میں سے سات درخواستوں کا اصل ریکارڈ غائب ہے۔تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر اور اس میں ملوث مجرمان کے خلاف دائر پٹیشن کی سماعت آج(پیر کو)اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جسٹس عامر فاروق نے تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے سینئر نائب صدر شیراز احمد فاروقی،جنرل سیکریٹری حافظ احتشام احمد اور محمد سعید کی جانب سے دائر پٹیشن کی سماعت کی۔پٹیشنرز کی جانب سے راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔عدالتی حکم پر ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے سائبر کرائم بابر بخت ایف آئی اے کے دیگر حکام کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے سائبر کرائم نے گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف درخواستوں کے متعلق رپورٹ عدالت عالیہ میں جمع کراتے ہوئے بتایا کہ 17 درخواستوں میں سے دس درخواستوں کا اصل ریکارڈ موجود جبکہ سات درخواستوں کا اصل ریکارڈ موجود نہیں ہے۔فاضل جسٹس عامر فاروق نے مذکورہ رپورٹ کی کاپی پٹیشنرز کے وکیل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے قرار دیا کہ ہم ابھی اس معاملے کو نہیں نمٹا رہے،پٹیشنرز کے وکیل رپورٹ دیکھ کر عدالت کی معاونت کریں۔دوران سماعت فاضل جسٹس عامر فاروق نے ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ توہین رسالت و توہین مذہب کے متعلق اس وقت کتنے مقدمات کا ٹرائل جاری ہے۔ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت آٹھ مقدمات درج ہیں،جن میں سے سات مقدمات میں ٹرائل جاری ہے۔پانچ مقدمات کا ٹرائل اسلام آباد میں جبکہ دو مقدمات کا ٹرائل پشاور میں ہورہا ہے۔پٹیشنرز کی معاونت سے ہم نے مذکورہ مقدمات میں ملزمان کو گرفتار کیا۔فاضل جسٹس عامر فاروق نے اس موقع پر استفسار کیا کہ جو ملزمان مذکورہ مقدمات میں گرفتار ہیں،وہ کیا پاکستانی ہیں۔ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے نے جواب دیا کہ جی ہاں،زیر حراست تمام ملزمان پاکستانی ہیں،انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز/ایپلیکیشنز پر گروپس بنا کر گستاخانہ مواد کی تشہیر کی۔فاضل جسٹس عامر فاروق نے ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے سے مزید استفسار کیا کہ کیا ملزمان کا تعلق بیرون ملک میں بھی ہے۔ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے نے بتایا کہ جی ہاں،ملزمان کے رابطے پاکستان سے باہر بھی ثابت ہوئے ہیں۔اتنے منظم انداز میں ملزمان گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم چلا رہے ہیں کہ گرفتاری تک ان کے گھر والے بھی ان کے جرم سے لاعلم ہوتے ہیں۔پٹیشنرز کے وکیل راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے اس موقع پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مقدمات کے متعلق ایف آئی اے کے بعض اقدامات پر اعتراض ہے۔ہماری درخواستوں پر مقدمات کا اندراج کیا گیا مگر ہمیں مدعی نہیں بنایا گیا۔دو مقدمات کا اندراج ہماری درخواست پر اسلام آباد میں کیا گیا مگر ان کا ٹرائل پشاور میں کیا جارہا ہے۔پٹیشنرز کے وکیل کے اعتراض پر فاضل جسٹس عامر فاروق نے ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے سائبر کرائم سے استفسار کیا کہ درخواست گزاروں کو مقدمات میں مدعی کیوں نہیں بنایا گیا۔جس کے جواب میں ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے نے بتایا کہ درخواست گزاروں کو مقدمات میں ہم نے اپنا سورس بنایا ہے۔سورس کو ظاہر کرنا ضروری نہیں۔فاضل جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ نے درخواست گزاروں کو مدعی نہیں بنایا تو کم سے کم گواہ بنانا چاہئیے تھا۔فاضل جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ مقدمات کا اندراج اسلام آباد میں کرکے ان کا ٹرائل پشاور میں کیوں کیا جارہا ہے۔ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے نے جواب دیا کہ ملزمان کے پی کے سے گرفتار ہوئے،اس لئے ان کا ٹرائل پشاور میں کیا جارہا ہے۔اس پر پٹیشنرز کے وکیل راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے پھر اعتراض کیا کہ قانون میں حدود سماعت کے لئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ملزم کہاں سے گرفتار ہوا،بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ملزم سے سرزد ہونے والے جرم کا اثر کہاں ہوا ہے۔اس موقع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جسٹس عامر فاروق نے عدالت میں موجود ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے سائبر کرائم کو پٹیشنرز کے اعتراضات کے ازالے اور گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف درخواستوں پر کاروائی کے لئے فؤکل پرسن کی تعیناتی کا حکم دیا۔جس پر ڈائریکٹر آپریشنل ایف آئی اے سائبر کرائم نے ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ایاز خان کو فؤکل پرسن تعینات کر دیا۔عدالت عالیہ نے عدالت میں موجود ایف آئی اے کے فؤکل پرسن ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ایاز خان کو پٹیشنرز اور پٹیشنرز کے وکیل سے میٹنگ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ ان کے اعتراضات دور اور مسائل کو حل کریں۔عدالت عالیہ نے ایف آئی اے کے فؤکل پرسن کو آئندہ سماعت پر اس متعلق رپورٹ جمع کرانے کا بھی حکم دیتے ہوئے یہ قرار دیا کہ اگر ایف آئی اے کے فؤکل پرسن نے پٹیشنرز کے اعتراضات کا ازالہ نہ کیا تو آئندہ سماعت پر عدالت معاملات کو دیکھے گی۔عدالت عالیہ نے مذکورہ بالا اقدامات و ہدایات کے ساتھ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف دائر پٹیشن کی مزید سماعت چھ اپریل تک ملتوی کر دی۔