نئی دہلی (ویب نیوز )
روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے دوران یوکرین میں پھنسے انڈین طلبا کی مصیبتیں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔
آئے دن کوئی نہ کوئی نئی ویڈیو سامنے آ رہی ہے جس سے انڈین طلباء کی کمسپرسی ظاہر ہوتی ہے۔
حال ہی میں انڈیا واپس آنے والی ایک طالبہ کا ویڈیو سامنے آيا جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ انڈین سفارتخانے کے عملے کا سلوک ناروا تھا اور انھوں نے ان کے سامنے یہ شرط رکھی کہ جو ٹوائلٹ صاف کرے گا اسے پہلے ملک واپس جانے دیا جائے گا۔
دریں اثنا انڈیا کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور وی مرلی دھرن نے ایک ٹویٹ کے ذریعے بتایا ہے کہ ’آپریشن گنگا‘ پوری طرح سے سرگرم عمل ہے اور یہ کہ اب تک 11 ہزار سے زیادہ طلباء کو یوکرین سے نکلا جا چکا ہے۔
انڈیا نے یوکرین سے اپنے طلبہ کو نکالنے کی مہم کو ‘آپریشن گنگا’ کا نام دیا ہے اور اس کے تحت گذشتہ ایک ہفتے سے درجنوں پروازیں عمل میں آئی ہیں۔
وی مرلی دھرن نے مزید لکھا کہ انھوں نے ایئر ایشیا سے 170 طلبہ کے گروپ کا نئی دہلی کے ایئرپورٹ پر استقبال کیا۔ اور انھوں نے اس میں اپنے مشن، دوسرے ممالک کی حکومتوں اور رضاکاروں کے مستقل تعاون کا شکریہ بھی ادا کیا۔
وی مرلی دھرن نے اپنی ٹویٹ کے ساتھ کئی تصاویر بھی شیئر کیں۔
خوفناک خواب
ہر چند کہ یوکرین اور روس دونوں ممالک انڈین طلبا کے ملک سے باہر نکلنے میں امداد پر آمادہ نظر آتے ہیں لیکن جنگ کے نو دن بعد بھی بہت سے طلبا کے لیے یہ جیسے کوئی مستقل خوفناک خواب ہے۔
گذشتہ روز انڈین یوتھ کانگریس کے قومی صدر بی وی سرینیواسن نے یکے بعد دیگرے کئی ٹویٹس کیے جس میں یوکرین سے آنے والے طلبہ نے اپنی حالت زار کا رونا رویا۔
انڈیا میں حزب اختلاف کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے بھی اس کے متعلق یکے بعد دیگرے کئی ٹویٹ کیے ہیں۔ ایک ٹویٹ میں انھوں نے لکھا: "مجبور طلبہ کے ساتھ ایسا شرمناک برتاؤ پورے ملک کی بے عزتی ہے۔ آپریشن گنگا کے کڑوے سچ نے مودی حکومت کا اصل چہرہ دکھایا ہے۔”
ایک دوسرے ٹویٹ میں انھوں نے لکھا: ‘انڈین طلبہ پر سوال اٹھانے کے بجائے مودی حکومت خود سے سوال کیوں نہیں کرتی۔ بحران میں پھنسے طلبہ نے سرکار کے ظلم اور ناکامی کا سچ دکھا دیا ہے۔’
انڈین یوتھ کانگریس کے صدر سرینواس بی وی نے وائرل ٹویٹ کے ساتھ لکھا ہے کہ ‘انڈین سفارتخانے کے لوگوں نے رومانیہ کی سرحد پر طلبہ سے کہا کہ ‘جو ٹوائلٹ صاف کرے گا ان کو پہلے انڈیا لے کر جائیں گے۔ سندھیا جی آپ کس سرحد پر ہیں؟’
اس ویڈیو میں دو لڑکیاں نظر آ رہی ہیں جن سے بات کی جا رہی ہے۔ ایک لڑکی کہتی ہے کہ ‘وہاں ہم کم سے کم ہزار طلبہ ہوں گے۔ ہمیں آفر کیا گیا کہ جو باتھ روم صاف کرے گا اسے پہلے انڈیا لے کر جائیں گے۔’ ان سے کوئی شخص سوال کرتا ہے کہ ‘یہ کس نے کہا تھا’ تو لڑکی جواب دیتی ہے انڈین ایمبیسی کے لوگون نے۔ جب اس شخص نے استفسار کی تو لڑکی نے بتایا کہ پہلے انھوں نے کہا کہ کوئی والنٹیئر کرے گا تو کسی نے خود کو پیش نہیں کیا۔ پھر انھوں نے کہا کہ جو پہلے واش کرے گا اسے پہلے لے کر جائیں گے تو سب چلے۔۔۔ پھر لڑکی سے وہی شخص سوال کرتا ہے کہ آپ نے کسی اہلکار کو افسر کو یا وزیر سے یہ بات نہیں کہی تو لڑکی نے جواب ‘وہاں پر ہم اس لیے نہیں بول سکتے کہ ہمیں وہاں سے نکلنا ہے۔’
بی بی سی نے ای میل اور دیکر سوشل میڈیا کے ذریعے یوکرین اور رومانیہ میں انڈین سفارتخانے اور انڈین وزیروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہنوز جواب کا انتظار ہے۔
ایک دوسرا ویڈیو بھی وائرل ہو رہا ہے جس میں انڈیا پہنچتے ہیں ایک طالبہ کے آنسو چھلک آئے۔
صحافی ویبھو پلنیتکر نے ان کی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ حکومت نے ان کی کوئی امداد نہیں کی۔ وہ حکومت سے کہنا چاہتی ہیں کہ جتنے بھی بچے وہاں پھنسے ہیں ان کی جتنا جلدی ممکن ہو نکالا جائے۔
دینک بھاسکر کے صحافی لکھتے ہیں کہ دہلی ایئرپورٹ کے باہر ان کی ملاقات یوکرین سے آنے والی طالبہ دیویانشی سچان سے ہوئی۔ دیوانشی سچان نے کہا: ’24 فروری کو روس اور یوکرین کے درمیان جنگ شروع ہو چکی تھی۔ ہم سب ڈر گئے کہ اب کیا ہوگا۔ ہم دو دنوں تک انڈین ایمیسی کو کال کرتے رہے۔ کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ اپنا سارا سامان لاد کر 15 کلومیٹر پیدل چلے۔ چار۔۔۔ چار راتیں کھلے آسمان کے نیچے منفی 10 اور منفی 20 ڈگری درجۂ حرارت میں رات گزاری۔ ہم کچلے گئے۔ ہمیں پیٹا گیا۔ اب سرکار ایویکوئیشن کے نام پر اپنا پرچار کر رہی ہے۔ کریڈٹ لے رہی ہے۔ شرم بھی نہیں آتی انھیں۔ ہمارے باقی ساتھیوں کو نکالیے ہم آپ کی خود جے جیکار (آفرین آفرین) کریں گے۔’
ہم نے یوکرین سے آنے والے ایک طالب عمل رجت جوہال سے فون پر بات کی۔ انھوں نے کہا کہ وہ ذہنی طور پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ البتہ انھوں نے بتایا کہ ان کی جدوجہد کامیاب رہی۔ اب یہاں آ کر وہ محفوظ محسوس کر رہی ہیں اور انھیں اس جدوجہد نے سبق دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جب وہ بات کرنے کی حالت میں ہوں گے تو ہمیں فون پر پیغام دیں گے۔
دریں اثنا روس نے اعلان کیا ہے کہ جنگ زدہ علاقے سے انڈیا سمیت دنیا کے دوسرے ممالک کے طلبہ کو نکالنے میں وہ مدد کریں گے۔
روس نے اعلان کیا ہے کہ اس کی 130 بسیں جنگ زدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے غیر ملکی طلباء کو نکالنے کے لیے سرحد پر کھڑی ہیں۔ اس کے بعد انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ ‘بسیں دراصل وہاں سے تقریباً 50 سے 60 کلومیٹر دور ہیں جہاں طلباء ہیں۔ ان کے لیے وہاں تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔’
باگچی نے کہا: ‘اس کے علاوہ، جب تک مقامی سطح پر جنگ بندی نافذ نہیں کی جاتی، ان طلباء کو وہاں سے نکالنے کا کوئی محفوظ طریقہ نہیں ہے۔’
اب جبکہ روس نے جنوب مشرقی یوکرین کے دو شہروں میں عارضی جنگ بندی اور انسانی بنیادوں پر راہداریاں کھولنے کا اعلان کیا ہے تو انڈین طلبہ و طالبات کو نکالنے میں آسانی ہوگی۔ روسی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ یوکرین کی طرف سے اس پر اتفاق کیا گیا ہے۔