تہران (ویب  نیوز)

ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ تہران کی تمام ریڈ لائنوں کا خیال رکھا جائے تو ہم سمجھوتے کو آخری شکل دینے کے لیے تیار ہیں۔ایرانی میڈیا کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے برطانوی ہم منصب سے ٹیلی فون پر بات چیت کی جس میں دو طرفہ تعلقات اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اس ٹیلی فونی بات چیت میں، برطانیہ کی جانب سے ایرانی قرض کی ادائیگی کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ بحالی اعتماد کے اقدامات انجام دے کر باہمی تعلقات کے فروغ کا راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے۔ویانا مذاکرات میں پیشرفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ہم حتمی سمجھوتے کے نزدیک پہنچ گئے ہیں تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ایک اچھے معاہدے کے حصول کو یقینی بنانے کا دار و مدار امریکہ کے حقیقت پسندانہ رویے اور نئے اور ناجائز مطالبات سے گریز پر منحصر ہے۔وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ اگر ہماری تمام ریڈ لائنوں کا خیال رکھا جائے تو تہران سمجھوتے کو حتمی شکل دینے کے لیے تیار ہے۔برطانوی وزیر خارجہ لزٹرس نے اس موقع پر گفتکو کرتے ہوئے لندن تہران تعلقات میں ہونے والی تازہ پیشرفت پر خوشی کا اظہار کیا۔

دونوں وزرائے خارجہ نے اس ٹیلی فونی گفتگو میں ویانا مذاکرات کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا اور حتمی سمجھوتے تک پہنچنے کی امید ظاہر کی۔ایران کے خلاف ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کے لیے ویانا مذاکرات کا آٹھواں دور آٹھ فروری سے شروع ہوا ہے اور جمعہ گیارہ مارچ کو اس میں ایک بار پھر وقفہ دیا گیا ہے۔یہ مذاکرات ایران کی مذاکراتی ٹیم کے تعمیری اقدامات کی وجہ سے پیشرفت کی جانب گامزن ہیں لیکن مغربی ملکوں کے لیت لعل اور خاص طور سے امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف غیر قانونی پابندیوں سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے معاملے میں پس و پیش سے کام لینے کی وجہ سے یہ مذاکرات طول پکڑ گئے ہیں اور اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آیا واشنگٹن ایٹمی معاہدے میں واپس آنا چاہتا یا نہیں۔ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے اسلامی جمہوریہ ایران کا کہنا ہے کہ ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کرنے والے ملک کے طور پر پہلے امریکہ ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر عملدرآمد کرے اور اس بات کا یقین حاصل کیا جائے کہ تہران کے خلاف تمام پابندیاں علمی طور پر ختم ہوگئیں۔