25 مارچ کو اجلاس ملتوی ہونے کا مطلب ہے 26 اور 27 مارچ کو کارروائی نہیں ہوگی
فاتحہ خوانی کے بعد کچھ دیر تک اجلاس ملتوی کرکے دوبارہ اجلاس بلا کر کارروائی کی جائے شیری رحمان
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق اپوزیشن کی طرف سے جمع کرائی گئی ریکوزیشن پر27مارچ کو ڈی چوک میں تحریک انصاف کے جلسے کے بعد ہی کارروائی آگے بڑھائی جا سکے گی۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعے کو اجلاس ملتوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پھر سنیچر اور اتوار یعنی 26 اور 27 کو کارروائی نہیں ہوگی اور پھر 27 مارچ کو ڈی چوک میں تحریک انصاف کے جلسے کے بعد ہی اس تحریک پر کارروائی آگے بڑھائی جا سکے گی۔ سپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ صبح گیارہ بجے کو طلب کر لیا ہے۔قومی اسمبلی کے اعلامیے کے مطابق یہ اسمبلی کا 41 واں اجلاس ہوگا۔ روایت کے تحت اس اجلاس کا پہلا دن اسمبلی کے ایک وفات پانے والے رکن کی فاتحہ تک ہی محدود رہے گا۔تاہم تحریک عدم اعتماد پر کارروائی اور ووٹنگ کے لیے اجلاس کب طلب کیا جائے، اس بارے میں ابھی واضح نہیں ہے۔۔ اپوزیشن نے 14 دن میں اجلاس نہ بلانے پر سپیکر کو سنگین آئین شکنی کا مرتکب قرار دیا ہے جبکہ سپیکر اسد قیصر نے وضاحت دی ہے کہ او آئی سی کے اجلاس کی وجہ سے کوئی موزوں عمارت دستیاب نہ ہونے کی وہ سے وہ 14 دن کے اندر اجلاس بلانے سے قاصر ہیں۔قومی اسمبلی کے اعلامیے میں تحریک عدم اعتماد سے متعلق کوئی ذکر نہیں ہے تاہم اپوزیشن نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد پر کارروائی نہ ہوئی تو پھر وہ احتجاج کریں گے۔اپوزیشن رہنماں نے سپیکر قومی اسمبلی پر آئین شکنی کا الزام عائد کیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اتوار کو اپنے تحریری آرڈر میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ آئین کے تحت 14 دن میں ریکوزیشن پر اجلاس طلب کرنے کے پابند تھے مگر او آئی سی کے اجلاس کی وجہ سے قومی اسمبلی کی عمارت میں اس وقت تزئین و آرائش کا کام جاری ہے جبکہ اسلام آباد میں کوئی اور ایسی عمارت دستیاب نہیں تھی جہاں یہ اجلاس منعقد کیا جا سکتا۔ان کے مطابق اسلام آباد انتظامیہ اور سی ڈی اے سے اجلاس کے لیے جگہ مانگی مگر پورے اسلام آباد میں کوئی جگہ نہیں ملی۔سپیکر کے مطابق اسمبلی نے رواں برس جنوری میں یہ قرارداد پاس کی تھی کہ قومی اسمبلی کا ہال او آئی سی اجلاس کے لیے دے دیا جائے۔ اسد قیصر کے مطابق وہ آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پہلے دستیاب دن یعنی جمعے والے دن 25 مارچ کو اپوزیشن کی ریکوزیشن پر یہ اجلاس طلب کر رہے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریکوزیشن کے بعد اجلاس کو 14 دن میں بلانا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اپوزیشن کی ریکوزیشن کی تاریخ 21 مارچ کو مکمل ہوتی ہے مگر سپیکر نے سنگین جرم کیا ہے اور (اب وہ) آرٹیکل 6 کے تحت آئیں گے۔ شیری رحمان نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ وقت حاصل کیا جا رہا ہے۔ یہ آئین کے بالکل ماورا ہے۔ سپیکر پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے۔شیری رحمان نے تجویز دی ہے کہ قومی اسمبلی اجلاس میں 15 منٹ پہلے دعا کر لیں پھر کچھ دیر تک اجلاس ملتوی کر دیں اور پھر دوبارہ اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر کارروائی آگے بڑھائیں۔انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اجلاس میں دو گھنٹے کے اندر عدم اعتماد تحریک پیش ہو جائے تاکہ پھر سات دن تک اس پر ووٹنگ ہو سکے۔تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی کا اجلاس کب ہوگا کے سوال پر وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ مجھے ابھی نہیں پتا کہ سپیکر کب اجلاس بلا رہے ہیں۔ تاہم ان کے مطابق سپیکر کو خاص حالات میں اجلاس ملتوی کرنے کی اجازت حاصل ہے۔اپنی دلیل کا حوالہ انھوں نے خواجہ صفدر کے ساتھ اپنی ایک پرانی ملاقات کا دیا کہ انھوں نے انھیں یہ بات بتائی تھی۔ تاہم اپوزیشن جماعتیں اپنے مقف کے بارے میں آئینی دلیلیں بھی پیش کر رہی ہیں۔اتوار کو پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 54 کی کلاز 3 کے تحت ایک چوتھائی ارکان ریکوزیشن درخواست جمع کرائیں تو سپیکر اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔ان کے مطابق آئین کے آرٹیکل 54 میں لکھا ہے کہ سپیکر صاحب 14 روز سے زائد تاخیر نہیں کرسکتے۔ ان کے مطابق رول 37 سپیکر کو پابند کرتا ہے کہ وہ اجلاس کے آغاز اور تلاوت کے فوری بعد تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش کرے، اس کے علاوہ وہ کوئی اور کارروائی ایوان میں نہیں کرسکتا۔ تحریک عدم اعتماد کو ایوان میں پیش کرنے کی اجازت کے بعد سپیکر صاحب اجلاس ملتوی نہیں کرسکتے۔ان کے مطابق آئینی و قانونی شقوں سے روگردانی آئین شکنی ہے جو ملک سے غداری اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔اپوزیشن رہنما سپیکر کے کردار کے حوالے سے بارہا اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور سنیچر کو پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اس خدشے کو ایک مرتبہ پھر دہرایا تھا۔شہباز شریف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سپیکر بن کر اپنا کردار ادا کریں ورنہ تاریخ میں ان کا نام بہت ہی برے الفاظ میں لکھا جائے گا۔انھوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ عمران خان کا آلہ کار نہ بنیں اور جمہوریت کو پٹڑی سے نہ اترنے دیں، ورنہ تاریخ اور عوام آپ کو معاف نہیں کرے گی۔ اسد قیصر کی پی ٹی آئی کے اجلاسوں میں شرکت منصب کی توہین ہے۔شہباز شریف کے جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر دیا گیا ہے جب تحریکِ عدم اعتماد کو ملتوی کرنے کے حوالے سے چہ مگوئیاں میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔سینیٹر شیری رحمان کے مطابق او آئی سی کی آڑ میں قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق اپوزیشن نے او آئی سی کے اجلاس کو مدنظر رکھ کر قومی اسمبلی اجلاس کے لیے ریکوزیشن جمع کرائی تھی۔ ان کے مطابق 21 مارچ کو اجلاس طلب کر کے تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کا آغاز کر کے پھر اس اجلاس کو او آئی سی کے اجلاس کے بعد تک ملتوی کیا جا سکتا تھا۔