ہماری سمجھ کے مطابق ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ فنڈ ضبط ہو سکتا ہے،  عدالت کے ریمارکس

پی ٹی آئی اپنا کیس دیگر درجنوں سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک کروانا چاہتی ہے،وکیل کامران مرتضیٰ

 پی ٹی آئی کو ایک ماہ کے وقت پر اعتراض ہے وہ تو ویسے بھی گزرچکا ہے،وکیل الیکشن کمیشن

اسلام آباد (ویب نیوز)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پارٹی فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد سنانے سے روکنے کے لئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے دائر انٹراکورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پاکستان تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ کا فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف نے انٹراکورٹ اپیل دائر کی تھی۔ اپیل پر جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس بابر ستار نے سماعت کی ۔ دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل کیپٹن (ر)انورمنصور خان نے پیش ہو کر کہا کہ پی ٹی آئی کو ٹارگٹ کیوں کیا جارہا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی بلاتفریق جانچ پڑتال کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن کورٹ آ ف لاء نہیں ہے، الیکشن کمیشن انتظامی باڈی ہے۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ہماری سمجھ کے مطابق ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ وہ فنڈ ضبط ہو سکتا ہے، سکروٹنی کمیٹی اپنی رپورٹ جمع کرواچکی ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس رپورٹ کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کرتی ہے یا نہیں۔ عدالت نے دوران سماعت یہ بھی استفسار کیا کہ عدالت، آئینی ادارے کے معاملات میں کیسے مداخلت کرسکتی ہے ۔ اس پر انور منصور خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نہ تو عدالت ہے اور نہ ہی ٹربیونل ۔ اس پر جمعیت علماء اسلام (ف)کے وکیل سینیٹر کامران مرتضیٰ نے پیش ہو کربتایا کہ پی ٹی آئی نے تمام سیاسی جماعتوں کی روزانہ کی بنیاد پر جانچ پڑتال کا کہا ہے ، سٹیٹ بینک آف پاکستان سے استدعا کررہے ہیں کہ جے یو آئی (ف)سے متعلق شواہد پیش کرے، بظاہر پی ٹی آئی کی نیت بری لگ رہی ہے ، پی ٹی آئی چاہتی ہے سب جماعتوں کا ایک ساتھ فیصلہ ہو یعنی کسی کا بھی فیصلہ نہ ہو۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا کیس پرانا ہے ، پہلے یہ طے ہونے دیں، پی ٹی آئی اپنا کیس دیگر درجنوں سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک کروانا چاہتی ہے۔ دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو ایک ماہ کے وقت پر اعتراض ہے وہ تو ویسے بھی گزرچکا ہے۔ جبکہ دوران سماعت جماعت اسلامی کے وکیل کا کہنا تھا کہ جب چاہیںجماعت اسلامی اپنی سکروٹنی کروانا چاہتی ہے چار سالوں کے دوران جماعت اسلامی کو ایک بار بھی الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹس جاری نہیں ہوا۔ عدالت نے کہا کہ جماعت اسلامی کہہ رہی ہے کہ ہم ہر وقت سکروٹنی کے لئے تیار ہیں۔ انور منصورنے کہا کہ جو بات جماعت اسلامی کہہ رہی ہے وہی بات ہم بھی کہہ رہے ہیں۔ اس پر عدالت نے انور منصور کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ بہت پیچیدہ ایشو کھڑاکررہے ہیں ، جماعت اسلامی کے جلسے سادگی سے ہوتے ہیں اور آپ کے جلسے زوردارہوتے ہیں اس لئے خرچہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ عدالت نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔