قومی سلامتی کا دفاع کرنا صرف فوج کا کام نہیں بلکہ اولین ذمہ داری قوم کی منتخب لیڈرشپ کی بنتی ہے،پریس کانفرنس
امریکی سفیر سے ملنے والوں کی لسٹ بنارہے ہیں، راجہ ریاض سے سفیر کس لئے ملے؟ کیا خارجہ امور پر گفتگو کرنی تھی، شیریں مزاری
اسلام آباد (ویب نیوز)
پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے کہا ہے کہ اگر ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی ایس پی آر بار بار سیاسی معاملات کی تشریح کرنا ضروری نہ سمجھیں تو یہ فوج کے لیے بھی اچھا ہوگا اور ملک کے لیے بھی اچھا ہوگا۔شیریں مزاری کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عسکری قیادت میں سے ایک صاحب نے ایک انٹرویو میں بات کی تھی کہ حقائق اور رائے کو الگ الگ کرکے دیکھنا چاہئے اور انہوں نے امریکا کی طرف سے دیئے گئے دھمکی آمیز خط میں سے دو چار جملے بھی پڑھے تھے۔اسد عمر نے کہا کہ دھمکی آمیز خط میں پاکستان کو سیدھی طرح دھمکی دی گئی تھی کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی اور عمران خان وزیر اعظم کے عہدے پر رہے تو پاکستان تنہائی کا شکار ہوگا اور پاکستان کے لیے مشکلات ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ خط میں لکھا گیا تھا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو سب کچھ معاف کردیا جائے گا۔اسد عمر نے کہا کہ امریکا کے اس خط میں سیدھی دھمکی تھی کہ اگر اچھے بچے بنو گے تو سب کچھ معاف کردیا جائے گا اور خودداری کی بات کروگے تو مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ بات قومی سلامتی کے 2 بار ہونے والے اجلاس کے بعد جاری ہونے والی پریس ریلیز میں لکھی گئی جس میں واضح طور پر بیرونی مداخلت کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور کہا گیا کہ بیرونی مداخلت کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ سچ ہے جس پر کوئی دو رائے ہے ہی نہیں، ہمارا ماننا ہے کہ بیرونی مداخلت ہوئی کیوں کہ اگر اس سے پہلے کے اقدامات دیکھیں تو کس طرح غیر ملکی سفیر خصوصی طور پر ان اراکین سے ملاقاتیں کرتے رہے جنہوں نے بعد میں پارٹی سے وفاداریاں تبدیل کیں اور کس طرح سے پیسہ آتا رہا اور ان اراکین کا ضمیر خرید کرنے کے لیے بہایا گیا۔ اسد عمر نے کہا کہ قومی سلامتی کی میٹنگ میں اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ وہ سازش کسی بھی بڑی تبدیلی کے لیے نہیں تھی اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کے ڈائریکٹر جنرل(ڈی جی)یہاں تک بھی درست کہتے ہیں کہ عسکری قیادت میں سے کچھ نے اس میٹنگ میں کہا کہ ان کو کسی بھی بیرونی سازش کے شواہد نظر نہیں آئے۔اسد عمر نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں جو سویلین قیادت بیٹھی تھی اس کو یہ بات نظر آ رہی تھی کہ بیرونی سازش ہوئی ہے جو کہ ایک رائے تھی۔انہوں نے کہا کہ عمران خان آئین و قانون پر عمل کرنے والے انسان ہیں اس لیے انہوں نے کوئی حکم جاری نہیں کیا کہ سب میری بات تسلیم کریں کہ بیرونی سازش ہوئی ہے اور ملوث لوگوں کو سزائیں دینا شروع کریں مگر عمران خان وہ خط کابینہ میں لے کر آئے اور جوڈیشل کمیشن بنانے پر زور دیا گیا مگر حکومت ہی ختم ہوگئی۔اسد عمر نے مزید کہا کہ ابھی بھی ہماری یہی اپیل ہے کہ اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جس کی کھلی سماعت ہو اور پورا پاکستان دیکھے کہ اس میں کون آ کر کیا بات کر رہا ہے اور کیا شواہد سامنے رکھے جا رہے ہیں، پھر اس بنیاد پر فیصلہ کیا جائے کہ واقعی میں بیرونی سازش تھی اور اگر سازش تھی تو اس میں کون ملوث تھا اور وہ تمام حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں۔اسد عمر نے کہا کہ یہ بات اس وزیر اعظم اور کابینہ نے کی جو ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹ لے کر حکومت میں آئی جس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قومی سلامتی کا دفاع کرے کیوں کہ قومی سلامتی کا دفاع کرنا صرف فوج کا کام نہیں ہے بلکہ اولین ذمہ داری قوم کی منتخب لیڈرشپ کی بنتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کابینہ میں جو تمام لوگ آتے ہیں وہ اس بات کا حلف اٹھاتے ہیں کہ ہم پاکستان کے آئین، خودمختاری اور قومی سلامتی کا دفاع کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے سپریم کمانڈر صدر پاکستان ہوتے ہیں اور انہوں نے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ آپ کو ایک کمیشن بنا کر ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے چاہئیں، ڈی جی آئی ایس پی آر سیاسی معاملات کی تشریح نہ کریں، سیاسی معاملات سیاستدانوں کو حل کرنے دیں۔اسد عمر نے مزید کہا کہ عمران خان صرف یہ کہتے ہیں کہ قوم کا یہ حق ہے کہ حقیقت تک پہنچا جائے اور پاکستان تحریک انصاف کی چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان چیف جسٹس کو پھر خط لکھیں گے جس میں وہ صدر پاکستان کی طرف سے لکھے گئے خط کا بھی ذکر کریں گے۔شیریں مزاری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بیان دیا یہ ان کا ویو پوائنٹ ہے۔عمران خان کو آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔یہ سراسر قابل قبول نہیں ۔یہ غلط کہا گیا ہے کہ عمران خان کا روس جانے کا فیصلہ صرف عمران خان کا تھا۔عمران خان نے سب کو اعتماد میں لے کر روس گئے تھے۔ڈاکٹرشیریں مزاری نے کہا کہ ہم لسٹ بنا رہے ہیں کہ امریکی سفیر کس کس سے ملے۔راجہ ریاض سے سفیر کس لئے ملے؟ کیا خارجہ امور پر گفتگو کرنی تھی؟امریکی سازش کا ماڈل پہلے سے موجود ہے، ہم یہ کہہ رہے ہیں امریکا یہ پہلی بار نہیں کررہا۔اگر یہ تحقیقات نہیں ہوں گی تو معاملہ ختم نہیں ہوگا، ہم چاہتے ہیں پھر سے ایسے کچھ نہ ہو۔